ادب،فکر و فن کی حسین شام، قاسمی صاحب کے نام


حسیب اعجاز عاشرؔ
چارلس ہوکووسکی لکھتے ہیں کہ”ادب کے بغیر زندگی جہنم ہے“، یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک عمیق سچائی ہے کہ ادب ہی ہے جس میں انسان اپنی زندگی کے کھوئے ہوئے رنگ تلاش کرتا ہے۔ ادبی تقریبات چاہے مشاعرے ہوں، کتابوں کی رونمائیاں ہوں یا علمی و فکری نشستیں، انسان کو روزمرہ کی مصروفیات سے نکال کر ایک ایسے ماحول میں لے جاتی ہیں جہاں الفاظ بولتے نہیں، دل سے سنائی دیتے ہیں،جہاں اپنی ذات سے جڑنے، دوسروں کو سمجھنے اور دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ایسی ہی ایک حسین شام کا چرچہ زبان زد عام ہے۔ یہ شام محض روشنیوں کی نہیں خیالات کی تھی، یہ محفل محض ملاقات کی نہیں مکالمے کی تھی، یہ لمحات محض وقت کے نہیں، یاد وں کے تھے۔
یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) میں معروف ادیب و دانشور، ڈرامہ نویس و شاعر،سفر نامہ نگار اور مزاح نگارعطاء الحق قاسمی کے اعزاز میں منعقد ہونے والی یہ حسین شام، ادب اور فکر و فن کی ایک خوبصورت جہت لے کر آئی۔مہمانِ خصوصی جناب عطاء الحق قاسمی کی آمد پر ہال میں والہانہ استقبال کیا گیا۔قاسمی صاحب کا ذکر ہو اور مزاح، دانش، ادب، سیاست اور معاشرت سب ایک ساتھ نہ آئیں یہ ممکن ہی نہیں۔انہوں نے اپنی مخصوص شگفتہ طبیعت اور گہرے مشاہدات سے مزاح کی وہ پرتیں کھولیں کہ سامعین نہ صرف قہقہے لگاتے رہے بلکہ اپنے موبائل کیمروں میں محفوظ بھی کرتے رہے۔بلاشبہ قاسمی صاحب کی تحریریں صرف ہنسانے کے لیے نہیں، جگانے کے لیے ہوتی ہیں اور یہی تحفہ انہوں نے اس شام یو ایم ٹی کے نوجوان اذہان کو دیا ایک فکر۔۔ایک جذبہ، اور ادب سے جڑنے کا سلیقہ۔۔طلبہ و طالبات کا نہ صرف قاسمی صاحب کو دلجمعی کے ساتھ سننا اور محسوس کرنا اِس بات کی روشن دلیل تھی کہ نوجوانوں میں ادبی رجحانات بھی وقت کے ساتھ ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں اور وہ اب ٹچ سکرین کی دنیا سے نکل کر اپنے بڑوں کو ساتھ بیٹھنا، اُن کو سننا اور اُن سے سیکھنا چاہتے۔
محترم احمد سہیل نصر اللہ کی نظامت شگفتگہ ادب،برجستہ کلمات اور خوش گفتار لب و لہجہ کا دلنشین امتزاج تھی,جس نے محفل کی گرم جوشی و شیرینی کو یگانگت اور لطف کے دھاگوں میں ایسا پروئے رکھا، حتیٰ کہ ہر گوشہ تعریف کے زمزموں سے گونج اٹھا۔تقریب کے منتظمین جن میں ذیشان رحمان، عابد اویس، عمر عنایت، علیزہ عمران کے نام نمایاں ہیں نے جس خوبصورتی سے اس محفل کا اہتمام کیا، وہ قابلِ صد آفرین ہے، ہر پہلو میں نفاست، وقار اور ایک خاص ادبی جمال دکھائی دیا۔ نشست و برخاست، روشنیوں کا انتخاب، اور سٹیج کی تزئین سب کچھ عطاء الحق قاسمی صاحب کی علمی قد کاٹھ کے شایانِ شان تھا۔شرکاء کی دلچسپی اور ہم آہنگی بھی دیدنی تھی۔
بلاشبہ عطاء الحق قاسمی اردو ادب کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں جنہوں نے بطور مزاح نگار، کالم نگار، ڈرامہ نویس اور سفارتکار اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ بطور انسان، عطاء الحق قاسمی ایک کشادہ دل، خوش مزاج،شائستہ شخصیت کے مالک ہیں۔ اُن کی محفلیں علم و ظرافت کا حسین امتزاج ہوتی ہیں، جہاں قہقہے بھی بکھرتے ہیں اور دانش کے موتی بھی۔ ان کے مشہور ڈرامے ''خواجہ اینڈ سنز''، ''شاید کہ بہار آئے'' اور ''حوار'' آج بھی ناظرین کے دلوں میں زندہ ہیں اور پاکستانی ڈرامے کے سنہری دور کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
عطاء الحق قاسمی کی اعزاز میں میزبان سہیل وڑائچ کے تحسینی کلمات دل سے نکل کر دل تک پہنچے تویوں لگا جیسے لفظوں نے ہاتھ تھام کر سامعین کو ایک ایسے سفر پر روانہ کر دیا ہو جہاں ادب صرف کتابوں میں نہیں، ہر سانس میں محسوس ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے دلچسپ واقعات، ادبی سفر اور قومی خدمات پر روشنی ڈالی گئی، اور حاضرین نے بارہا بھرپور داد دے کر اپنے خراجِ تحسین کا اظہار کیا۔نہ صرف نوجوان طلبہ بلکہ اساتذہ اور اہلِ ذوق سامعین بھی ہمہ تن گوش رہے۔دیارِ غیر سے تشریف لائے قمر ریاض کی سٹیج پر آمد نے محفل کو نکہت و ذیبائش بخشی جبکہ ادب و ثقافت سے وابستہ دیگر معروف شخصیات کی موجودگی بھی محفل کو وقار، روشنی اور وقعت عطا کر رہی تھیں۔
طاہر مہدی نے جب عطاء الحق قاسمی کے منتخب کلام کا نکہت آفریں انداز میں نذرانہ پیش کر کے محفل کی رونق اور وقار کو بام عروج پر پہنچا دیا۔حا ضرین جھومتے رہے، لبوں سے ''واہ واہ'' اور ''مکرر'' کی صدائیں گونجتی رہیں یہ لمحے ادبی حسن کے گواہ بن گئے۔
تقریب کے اختتامیہ لمحات میں آمنہ مفتی صاحب نے تبسم آمیز لہجے میں کہا کہ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ”کسی نیک روح کی دعا نے قاسمی صاحب کو نوازا ہے“، مگر میں کہتی ہوں، بھلا کس کس کی دعا ان پر سایہ فگن نہیں ہوئی! اصل راز تو یہ ہے کہ وہ خود اپنی طبیعت کی سختی اور سڑیل پن سے محفوظ ہیں۔یہی ادا سب کو بھاتی ہے۔منتظمین نے آئندہ بھی ایسی علمی و ادبی محافل کے تسلسل کا عندیہ دیا، جہاں لفظ، محبت اور ادب مل بیٹھیں، تسلسل سے جاری رہیں گی تاکہ ادب اور فکر و فن کا دیا ہمیشہ روشن رہے۔پیش کیا گیا طعام بھی ذائقے، اہتمام اور مہمان نوازی کی ایسی مثال بناجہاں ہر لقمے میں تہذیب کی چاشنی شامل تھی۔
اِدھر احمد سہیل نصراللہ کا اعلان کرنا تھا کہ”کھانا آپ کا انتظار کر رہا ہے“ اُدھر مہمانِ خصوصی پر تو جیسے کیمرؤں کی بارش ہو گئی ہر کوئی اپنی تصویر میں ان کی قربت کا چراغ روشن کرنا چاہتا تھا۔ہم نے سوچا، تصویر تو سب کی بن جائے گی، مگر وقار کا فریم خالی رہ گیا تو کیا خاک یادگار ہو گا،چنانچہ ہم نے دوری میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔۔ایک محفل کا احوال اور ابھی باقی ہے جو مقامِ طعام پر جمی تھی جہاں مظفرمحسن صاحب حسب عادت شوخ جملے اچھال رہے تھے، سید بدر سعید کی سنجیدگی میں بھی شرارت کی لکیریں ابھر رہی تھی، بڑے بھائی کی موجودگی میں اسعد نقوی کی آنکھوں میں شرارتیں صاف سہمی سہمی نظر آ رہی تھیں،شہزاد اسلم راجہ، شعیب مرزا،مرزا یسین بیگ،پرنس اقبال،رشید گوہر بٹ صاحبان کی موجودگی بھی فضا کو والہانہ خوشبو سے بھر رہی تھی، کچھ اِدھر کی باتیں کچھ اُدھر کی یادیں، قہقہے بکھر رہے تھے،سب کچھ تھا، نہیں تھی تو چائے نہ تھی۔چائے کی عدم موجودگی نے یوں خلاء پیدا کر رکھا تھا جیسے باغ میں خوشبو کم ہو، یا ساز میں کوئی دھن ادھوری رہ جائے،بہر حال شام ڈھل رہی تھی مگر من سے آواز آ رہی تھی کہ کچھ لمحے اور ٹھہر جائیں کہ دوستوں سے ایسی ملاقات شاید پھر کبھی خوابوں کی صورت ہی ہو۔لمحے ٹھہر بھی جاتے تو بہرحال اُن کو جانا ہی تھا کہ وقت کہاں رُکتا ہے۔
ٍ کہیں طنز کے سائے میں سچائی چمکی،کہیں ہنسی کے پردے میں آنکھ بھی نم ہوئی۔یہ محفل فقط تقریب نہ تھی،یہ الفاظ کے پروں پر اڑتی ہوئی ایک خواب سی شام تھی۔یہ شام تھی ادب کی توقیر کی، فکر کی روشنی کی اور فن کی نزاکت کی اور یہ شام تھی قاسمی صاحب کے نام جو حسین یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 124 Articles with 142535 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More