اے گایو بھیڑو بکریو! غیرت کی جنگ تم سے ہے

سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ لڑکیوں کو ہو کیا گیا ہے ۔ خصوصاً وہ لڑکیاں جو قبائلی جاگیردارانہ اور قدامت پرستانہ پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں ۔ جن کے ہاں برادری سے باہر رشتہ نہیں کیا جاتا اور اس میں بھی بڑوں بزرگوں کا ہی حکم چلتا ہے ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ برادری کے اندر بھی رشتہ طے کرتے وقت بچوں کی رضامندی ضروری نہیں سمجھی جاتی ۔ پھر ایسے ماحول کی پروردہ لڑکیاں کیسے ذات برادری سے باہر کسی لڑکے سے اتنے مراسم بڑھا لیتی ہیں کہ بات شادی تک جا پہنچتی ہے اور وہ گھر سے فرار ہو کر چوری چھپے نکاح کر لیتی ہیں ۔ گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے شادی کرنا تو کسی بھی دور میں اور کہیں بھی پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ایسی لڑکی بوڑھی بھی ہو جائے تو بھگوڑی ہی کہلاتی ہے ۔ بھگا کے لے جانے والا بھی عزت نہیں دیتا بلکہ طعنے ہی دیتا ہے کہ جو اپنوں کی نہ ہوئی وہ میری کیا ہو گی ۔ عشق کا نشہ ہرن ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ۔

آج سے پچیس تیس سال پہلے بھی ایسی خبریں آیا کرتی تھیں کہ برسوں پہلے گھر سے بھاگ کر خفیہ شادی کر کے روپوش ہو جانے والی لڑکی کو اس کے گھر والوں نے ڈھونڈ نکالا اور کیفر کردار تک پہنچا دیا ۔ ایسی متعدد عبرتناک مثالیں موجود ہونے کے باوجود باقی لڑکیوں کو سبق کیوں نہیں ملتا؟ کیوں آج تک بھی والدین کی مرضی کے خلاف گھر سے بھاگ کر اپنی پسند کی شادی کرنے کا سلسلہ جاری ہے؟ جس کا نتیجہ ذلت و رسوائی تو ہے ہی ساتھ ہی ایک ممکنہ دردناک موت بھی ۔ آئے دن تارکین وطن سے لدی ہوئی کشتیوں کی غرقابی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں مگر غیر قانونی طریقوں سے یورپی ممالک تک رسائی کے جنون میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ بالکل اسی طرح گھر سے فرار ہو کر بذریعہ عدالت نکاح کر لینے والی اکثر ہی لڑکیوں کو غیرت کے نام پر عبرتناک انجام سے ہمکنار کر دیا جاتا ہے مگر اپنی من مرضی کے رجحان میں کوئی افاقہ نظر نہیں آتا ۔

ابھی ہمارے معاشرے کو بدلنے میں پدرسری سوچ و تسلط کے اثر و نفوذ کو معدوم ہونے کے لئے کئی صدیاں درکار ہیں ممکن ہے کہ ایسا کبھی نہ ہو ۔ جہاں دین کے ایک واضح حکم کے باوجود کہ رشتہ طے کرتے وقت لڑکی کی رضامندی معلوم کی جائے ، اُسے اپنی انا و غیرت کا مسئلہ بنا لیا جائے لڑکی کی پسند کسی گناہ کے مترادف ہو اور اپنی رسوم و روایات ہی مقدم ہوں نکاح کے لئے با عزت طور پر بھیجا گیا پیغام حقارت و رعونت کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے تو لڑکیوں کو بھی اپنی صرف ایکبار ملنے والی زندگی پر رحم کھاتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ شریعت میں ولی یعنی سرپرست کی موجودگی یا اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ۔ اور اس منصب پر فائز ہستیوں کو اپنے حق اور اختیارات کا تو بخوبی علم ہوتا ہے مگر باقی کے احکامات سے کوئی سروکار نہیں ۔ لہٰذا بہن بیٹیاں کوئی بھیڑ بکریوں کا درجہ رکھتی ہیں جن کا کام ہی قربان ہو جانا ہے جن کی رضا یا رائے کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ ضرورت ۔ بس جو گائے کی طرح سر جھکا کر اپنے بڑوں کا فیصلہ قبول کر لیتی ہیں تو اِسی میں اُن کی عافیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے من کو مار کر اُن کی مرضی اور پسند کے کھونٹے سے بندھ جائیں ، بغاوت سرکشی اور سرتابی کی سزا صرف موت ہے اور وہ بھی خود اپنوں کے ہاتھوں ۔ اور کبھی کہیں وہی ستمگر زندگی چھین لیتا ہے جسے پانے کے لئے زمانے سے ٹکر لی تھی ۔

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 246 Articles with 1967237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.