اخلاق مر رہے ہیں، ہم زندہ کیسے؟

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں عمارتیں بلند ہو رہی ہیں، مگر اخلاق گرتے جا رہے ہیں۔ جھوٹ عام ہو چکا ہے، وعدے صرف الفاظ بن کر رہ گئے ہیں، اور کسی کا درد محسوس کرنا کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ہم دوسروں کی غلطیوں کو اچھالتے ہیں، مگر اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ سچ بولنے والا تنہا رہ جاتا ہے اور خوشامد کرنے والے کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہی تو وہ وقت ہے جب سوال اٹھتا ہے کہ اگر اخلاق ہی ختم ہو گئے تو انسانیت کہاں جائے گی؟

ہم نے تعلیم کو صرف ڈگری کے لیے رکھا ہے، تربیت کو فراموش کر دیا ہے۔ مسجد، مدرسہ، اسکول، گھر — سب میں نصیحتیں تو بہت ہیں، مگر عمل کم ہے۔ والدین بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں، مگر سچ بولنے، بڑوں کا ادب کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی تربیت نہیں دیتے۔ سماجی میڈیا پر ہمدردی کے پوسٹ تو نظر آتے ہیں، مگر حقیقی زندگی میں بے حسی کا راج ہے۔

زندگی کی خوبصورتی صرف کامیابی میں نہیں، بلکہ اچھے اخلاق میں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ہو تو ہمیں پہلے خود کو بہتر بنانا ہوگا۔ اخلاق مردہ ہو چکے ہیں، لیکن ہم زندہ ہیں — شاید اس لیے کہ ہمیں ابھی بھی موقع دیا جا رہا ہے کہ ہم بدل جائیں۔ سوال یہی ہے: کیا ہم بدلیں گے؟

 

Abdus sami
About the Author: Abdus sami Read More Articles by Abdus sami: 9 Articles with 302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.