زمین، جو ہمارا گھر ہے، آج شدید تکلیف میں ہے۔ درختوں کی
کٹائی، فیکٹریوں سے نکلتا زہریلا دھواں، پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال، اور
پانی کی بربادی نے زمین کے قدرتی توازن کو برباد کر دیا ہے۔ ماحولیاتی
تبدیلی نے موسموں کی ترتیب کو بگاڑ دیا ہے، گرمیوں کی شدت بڑھ چکی ہے، برف
پگھل رہی ہے، اور سیلاب اور قحط معمول بن چکے ہیں۔
یہ سب ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ترقی کی دوڑ میں زمین کا
خیال رکھنا چھوڑ دیا۔ فطرت ہمیں بار بار خبردار کرتی ہے، کبھی زلزلے سے،
کبھی بارشوں سے، کبھی بیماریوں سے۔ لیکن افسوس کہ ہم سننا ہی نہیں چاہتے۔
ہم نے زمین کو صرف لینے کا ذریعہ سمجھا، دینے کا نہیں۔ اب زمین خود چیخ رہی
ہے کہ “مجھے بچاؤ”۔
ہم سب کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ درخت لگانا، پانی اور بجلی کی بچت
کرنا، پلاسٹک کا کم استعمال کرنا، اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے جینا، یہی
زمین کی حفاظت کا راستہ ہے۔ اگر آج ہم نے نہ سنا تو آنے والی نسلیں ہمیں
معاف نہیں کریں گی۔ زمین کا درد سننے کے لیے دل ہونا چاہیے، کیا ہمارا دل
ابھی زندہ ہے؟
|