چھوٹے سے قصبے کے کونے میں واقع ایک پرانا سا کمرہ، جہاں
دیواروں پر وقت کے داغ ثبت تھے، اور کھڑکی سے اندر آتی دھوپ ماضی کے گرد
اُڑاتی تھی —
وہ ندیم کی کل دنیا تھی۔ ایک عام سا نوجوان، غیرمعمولی خواب سجائے،دنیا کی
نظر میں وہ ایک ناکام گریجویٹ تھا، مگر دل کی کسی ویران گلی میں وہ خود کو
ایک لکھاری مانتا تھا،وہ سمجھتا تھا کہ اس کے آس پاس کئی حرف لفظوں میں
ڈھلنے کو ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں ۔
قلم اور کاغذ اس کے بچپن کے کھلونے تھے۔ ماں جب چولہے پر دال پکاتی تو ندیم
باہر بیٹھا آسمان کو تکتا اور الفاظ سوچتا۔ اسے لگتا جیسے بادلوں کے پیچھے
کوئی کہانی چھپی ہے، جیسے ہواؤں میں کوئی نظم گنگنا رہی ہے،جیسے طلوع ہوتا
سورج ایک افسانہ لکھ رہا ہے ،جیسے غروب ہوتا آفتاب ایک درد لے کر جا رہا ہے
،جیسے چاند کی چاندنی اور ستاروں کا جھرمٹ کوئی لوری سنا رہیں ہیں ۔
لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، زندگی کے حقیقی رنگ اس کے خوابوں کو دھندلا کرنے
لگے۔ رشتہ داروں کے طنز، دوستوں کی ہنسی، اور اخبار میں شائع ہونے والے
مشہور مصنفین کی چمکتی تصاویر — سب نے اُسے باور کروایا کہ "لکھاری بننا
خواب ہے، حقیقت نہیں ،پیشہ نہیں۔"
انسانی ذہن اپنی جگہ مگر کچھ خواب مٹی میں دفن ہو کر بھی سانس لیتے رہتے
ہیں۔
ایک شام جب شہر کی بتیاں جل رہی تھیں اور اندر کی روشنی بجھ رہی تھی، ندیم
نے پرانی ڈائری نکالی۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، مگر دل ایک عجیب سکون میں
تھا۔ اُس نے لفظوں کو بےترتیبی سے صفحے پر بہنے دیا۔ نہ کوئی صنف، نہ قاعدہ
و قواعد، نہ کسی کتاب کا حوالہ—
بس دل کی باتوں کو قلم کی نوک سے کاغذ کی زینت بنا دیا ،اپنی زندگی کے قلمی
سفر کا پہلا افسانہ لکھ دیا ۔
یہ افسانہ اُس نے لاہور کے ایک ادبی رسالے کو بھیجا۔ مہینوں کوئی جواب نہ
آیا۔ مایوسی نے پھر سر اٹھایا، مگر وہ خامشی پہلے جیسی نہ رہی۔ اُس کی
خامشی اب لفظوں سے معمور تھی۔
پھر ایک دن، ڈاکیا آیا۔ وہی معمول کا پرانا آدمی، مگر اس بار اُس کے ہاتھ
میں ایک نیا پیغام تھا ،بلکہ یوں کہیں کہ اس کی زندگی کا وہ راستہ جو اسے
منزل تک پہنچنے میں مدد کرے گا— ڈاکیا ندیم کے افسانے کی اشاعت کی اطلاع
لایا تھا ۔
ندیم کی آنکھوں میں نمی تھی، ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی شاید وہ جان گیا تھا کہ
تخلیق کا عمل سست ضرور ہوتا ہے، مگر بےنتیجہ نہیں۔
خالق کائنات دیر سے سنتا ہے لیکن سنتا ضرور ہے ،انسان کی محنت کا پھل اسے
ضرور ملتا ہے یا پھر یوں سمجھیں کہ انسان کو اس کے گمان کے مطابق منزل مل
ہی جاتی ہے ۔
برسوں کے خواب کو تعبیر مل گئی اور بڑے بڑے رسالوں میں ندیم کی کہانی شائع
ہونے لگیں ،اس کے لکھنے کے فن نے اس کی کم تعلیم پر پردہ ڈال دیا تھا ،ایک
سے بڑھ کر ایک اعزاز اس کی گود میں آ رہا تھا ،
ندیم اب بڑا لکھاری بن گیا تھا،حرف کو لفظ ،لفظ کو جملہ بنانے کا ہنر جان
گیا تھا ،اپنے آس پاس بکھری ہوئی کہانیوں کو لفظوں کی زبان دینے لگا تھا،
اس کے پڑھنے والے اس کی تحریر کا انتظار کرتے تھے اور لفظوں کی جادو گری سے
پہچان لیتے تھے کہ یہ ندیم کا لکھا ہوا کردار ہے ،
لیکن وہ اب بھی خود کو مشہور نہیں سمجھتا تھا،وہ ہمیشہ اپنے ملنے والوں سے
کہتا تھا کہ یہ میرے رب کی عطا ہے ، وہ کہتا تھا لکھاری کی سب سے بڑی
کامیابی صبر کرنا اور ہمت نہ ہارنا ،لکھنے والے کو برداشت کرنا ہے معاشرے
کا رویہ اور پہلے خود کو پہچاننے کا سفر کرنا اور پھر پہچان کرجینا ہے —
اور یہی اصل کامیابی تھی۔
نوٹ!!
یاد رکھیں کہ ندیم ہر اُس شخص کی علامت ہے جو لفظوں میں جیتا ہے، مگر دنیا
کی آوازوں سے ڈرتا ہے۔ یہ کہانی اُن سب کے لیے ہے جو لکھنا چاہتے ہیں — مگر
خود پر یقین نہیں کر پاتے۔
|