عیدالاضحیٰ

عیدالاضحی اللہ تعالٰی کے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام خلیل اللہ اوران کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مثالی جذبہ اطاعت ،تسلیم ورضا،استقلال و استقامت کی عظیم قربانی کی یاد کا دن ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری ہے :جب وہ دوڑنے کی عمر میں کو پہنچا تو ابراھیم علیہ السلام نے کہا :”اے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تھمیں ذبح کر رہا ہوں ،تم کہو تھمارا کیا خیال ہے “اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا ،”اے ابا جان ،آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے پورا کر ڈالیں ،انشاءاللہ مجھے صابرین میں پائیں گے “۔اس کے بعد ابراھیم علیہ السلام نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے انھیں پکارا،اے ابراھیم،تم نے خواب سچ کر دکھایا ،ہم نیکوں کاروں کو بہتر بدلہ دیتے ہیں ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام جب دنیا میں آئے تو ہر طرف بت پرستی کا دور تھا اور لوگ بتوں کو بنا کر پو جا کرتے تھے ۔لوگوں کو اس بت پرستی کی حالت میں دیکھ کر حضرت ابراھیم علیہ السلام افسوس کا اظہار کرتے ،انھیں کلمئہ توحید کی دعوت دیتے ۔دعوت دین ،کلمئہ توحید کہنے پر اور بت شکنی کی پاداش میں آپ کو بادشاہ وقت نمرود نے آگ میں ڈال دیا تھا ،لیکن حضرت ابراھیم علیہ السلام استقامت پر قائم رہے اور کلمئہ توحید کی سربلندی کے لیے پوری طرح ثابت قدم رہے ۔ اللہ تعالٰی کو یہ جذبہ ایمانی اس قدر پسند آیا کہ فرمان باری تعالٰی جاری ہوا ۔ترجمہ :ہم نے آگ کو حکم دیا کہ آگ سلامتی والی ہو جا اور ابراھیم علیہ السلام پر سلامتی والی بن جا ۔ ِ(سورةالانبیائ)

ابراھیم علیہ السلام کی زندگی اطاعت الی اللہ سے معمور و منور ہے ،اسی جذبہ اطاعت نے ثابت کر دیا کہ مالک کائنات کی رضا کے آگے سر جھکا نا اور اس کے احکام کو تسلیم کرنا لازم ہے ۔ قربانی کرنا حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اللہ تعالی نے قیامت تک اس کو جاری فرمادیا ہے ۔ قربانی کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور اکرم ﷺسے دریافت کیا کہ قربانی کیا ہے؟حضور اکرمﷺنے ارشاد فرمایا :”یہ تھمارے باپ ابراھیم( علیہ السلام )کی سنت ہے ۔“پوچھا گیا اس میں کیا فائدہ ہے ؟حضور ﷺنے ارشاد فرمایا ۔”ایک بال کے بدلے ایک نیکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ قربانی کے دن قربانی کا عمل اللہ کو محبو ب ہے ،خون کا قطرہ گرنے سے قبل ہی سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔“(ترمذی ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺدس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی کی “۔(مشکوة)

قربانی نہ کرنے والوں کو تنبیہ کر تے ہوئے فرمایا کہ ”جو شخص قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے “۔(ابن ماجہ )ارشاد باری ہے :”اللہ کو قربانی کا خون وگوشت نہیں پہنچتا ،بلکہ اخلاص و تقویٰ پہنچتا ہے “۔(سورةالحج ) یعنی جانور کو قربان کر کے اور گوشت تقسیم کر نے کے عمل سے اللہ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس عمل میں جذبہ اطاعت ،اخلاص موجود نہ ہو اور یہ تمام عبادات میں مطلوب ہے ،چاہیے اس کا تعلق مالی عبادت سے ہو یا جسمانی عبادت سے ۔اس کا مقصد تو ہے ہی حب مال کو دل سے نکال کر حب اللہ اور حب رسول ﷺکاجذبہ پیدا کرنا اور اپنے نفس کو خالق کائنات کا مطیع بنانا ہے ۔جس طرح ہم نے اللہ کے حکم کے مطابق سنت ابراھیمی کو زندہ کیا اور جانور کی قربانی دی با لکل اسی طرح ہمارا عزم ہو کہ اسلام کی سربلندی اور رب تعالی کی خوشنودی کے لیے اپنی جان کو قربان کرنے سے دریخ نہیں کریں گے ۔
Tahir Ahmed
About the Author: Tahir Ahmed Read More Articles by Tahir Ahmed: 4 Articles with 4096 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.