حج بیت اللہ اورعشرہ ذوالحجہ کے دیگراعمال

ہر سال دنیا کے طول وعرض سے لاکھوں فرزندا ن توحیدحج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں۔ حج بیت اللہ جہاں بہت سے سیاسی ، تمدنی ، مادی اور روحانی فوائد کا جامع ہے ،وہیں اسکا بہت بڑا فائدہ وحدت امت کا عملی اظہا ر ہے۔اسی مو قع پر اسلامی اتحاد واتفاق اور اخوت ومساوات کا عملی مظاہرہ ہو تا ہے اور یہی حج اس اخوت ومحبت کو برقرار رکھنے کا بھی ذریعہ ہے۔ کیونکہ دنیا کے گوشے گوشے سے مختلف رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کے لوگ ایک ہی جگہ ، ایک ہی وقت اور ایک جیسا لباس زیب تن کر کے لبیک اللہم لبیک کی پر کیف صدائیں بلند کرتے ہو ئے ایک جیسے اعمال اور افعال بجا لاتے ہیں ، جس سے اسلامی اتحاد و اخوت کو تقویت ملتی ہے۔ او ر اس با ت کا اظہار ہو تا کہ مسلمان رنگ وخون کی تفریق سے بالا تر ہیں ، اور بقول اقبال۔۔۔۔۔۔
بتان رنگ وخون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے با قی، نہ ایرانی، نہ افغانی
کی عملی تصویر بن کر اپنے رب کے سامنے حا ضر و موجود ہیں۔ گویا حج ہرسال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے جغرافیائی ، نسلی ، لسانی اور سیاسی اختلافات کو مٹا کر انہیں ہما گیر انسانی وحدت کا روپ عطا کرتا ہے۔

خدا کی شان دیکھئے کہ دولت وثروت کی بنیا د پر انسانیت کی تقسیم کی بیخ کنی کرتے ہو ئے اس مو قع پر امیر وغریب ، شاہ وگدا کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ جو اس بات کا کہ بندہ وصاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سر کا ر میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
کاعملی اعلان ہو تا ہے۔

اسی طر ح حج مسلم امہ کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اور یہ انہیں بزبان حال یہ پیغام دیتا ہے کہ
ایک ہو ں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر

جسکے اندر یہ بنیا دی فلسفہ پنہاں ہے کہ مسلم امہ غیر مسلم طاغوتی قوتوں کی اقتصادی لو ٹ کھسوٹ ،سیاسی رقابتوں اور ریشہ دوانیوں اور فکری غلامی سے محفوظ رہنے لے لئے ایک لڑی میں پرویا جا ئے تاکہ مسلمان دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے کے قابل ہو سکیں۔اس تناظر میں حج کایہ عظیم الشان اجتماع اسلامی بلاک (جسکی تشکیل ہی مسلمان سیاسی ، فنی ، عملی، تہذیبی اور سماجی میدان میں ترقی کی ضامن ہے )کی تشکیل ،عرب وعجم کے اختلافات کو مٹانے اور انہیں کھوئی ہوئی عظمت رفتہ ، اور سرفرازی عطاکرنے کے لئے حیرت انگیز انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔الغرض حج حقیقی معنوں میں تمام ظاہری امتیازات اور گونا گوں فروعی ، لسانی اور علاقائی اختلافات کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے اند ر عاجزی ، سادگی ، خدا پرستی ، خوف الہی ، انسان دوستی ، اخوت مساوات اور ملی وحدت کا زبردست جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہی جذبہ آ ج کے دورکا تقاضا بھی ہے ا ور انسانیت اور بالخصوص امت مسلمہ کے دکھوں کا مداوہ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں امن و سلامتی کا ضامن بھی ہے۔

اب آئیے!ذراعشرہ ذوالحجہ کے اعمال پرایک نظرڈالتے ہیں:

فضائل عشرہ ذوالحج :
آپ عشرہ ذوالحج کے ایام مبارکہ سایہ فگن ھو چکے ہیں۔ ان میں اعمال کی بہت ہی زیادہ فضیلت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :” ایسے کوئی دن نہیں جن میں کیا گیا عمل اللہ کو ان دنوں میں عمل سے زیادہ محبوب ھو ”۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :” اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ” اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں۔ سوائے اس آدمی کے جو اپنا مال لیکر اور ہتھیلی پر جان رکھ کر میدان جہاد میں جا اترا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی واپس نہ لایا ”۔ ( بخاری )

اعمال عشرہ ذوالحج :
ان دنوں میں بکثرت تکبیریں کہیں اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، صلہ رحمی اور صدقہ و خیرات کریں ، اپنے والدین سے صلہ رحمی اور نیکی و حسن سلوک کریں ، لوگوں کی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کریں ان کی ضروریات کو پورا کریں اور ہر قسم کی عبادت و اطاعت کو سرانجام دیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کہتے ہیں :” عشرہ ذوالحج کے دن ماہ رمضان کے آخری عشرہ کے دنوں سے افضل ہیں اور ماہ رمضان کے آخر عشرہ کی راتیں اس عشرہ ذوالحج کی راتوں سے افضل ہیں “۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عشرہ میں لوگوں کے مابین تکبیر کی سنت کو زندہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہما عشرہ ذوالحج میں بازار میں نکلتے اور ( بآواو بلند ) تکبیریں کہتے اور لوگ بھی ان دونوں کی دیکھا دیکھی تکبیریں کہنا شروع کر دیتے تھے” ( بخاری )

قربانیاں :
اس عشرہ ذوالحج میں خیر و نیکی کے مواقع یکے بعد دیگرے چلے آتے ہیں۔ عید الاضحی کے دن اور اس کے بعد والے ایام تشریق کے تین دنوں میں قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کی نیکی ہے۔ حدیث میں ہے :” نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو خوبصورت اور سینگوں والے (موٹے تازے ) مینڈھے قربانی دی ان پر آپ ﷺ نے بسم اللہ اکبر ( تکبیر ) پڑھی اور انہیں اپنے دست مبارک سے ذبح کر دیا “۔ ( متفق علیہ )

افضل قربانی :
افضل قربانی وہ ہے جو زیادہ قیمتی ھو اور گھر والوں کے نزدیک زیادہ نفیس ھو۔ قربانی میں ایک بکری ایک شخص اور اس کے تمام گھو والوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے۔ اور جو قربانی کرنا چاہے اس کے لیے ناجائز ہے کہ وہ ذوالحج کا چاند طلوع ھو جانے سے لیکر اپنے جانور کو ذبح کرنے تک اپنے ناخن بال یا جلد و چمڑے میں سے کچھ کاٹے۔ خوش دلی سے قربانی دیں اور اس کا گوشت خود بھی کھائیں دوسروں کو بھی کھلائیں اور صدقہ بھی کریں اور اپنے صدقات و خیرات کے لیے اپنے فقرا کو تلاش کر لیا کریں کیونکہ ان میں سے کوئی آپ کا قرابت دار و عزیز ھو گا اور کوئی ہمسایہ۔

یوم عرفہ کا روزہ:
اپنی عیدوں کو ہر اس فعل سے پاک رکھیں جو کہ اللہ تعالٰی کو غضبناک کرنے والا ہے۔ حجاج کے ساتھ ان کی دعاؤں تہلیل ( لا الہ الا اللہ ) اور تکبیروں میں شامل ھو جاؤں جو شخص اپنے ہی گھر میں رہے اور حجاج اس سے سبقت لے جائیں اور مشاعر مقدسہ میں جا پہنچیں تو ایسے لوگوں کے لیے یہ سنت ہے کہ وہ یوم عرفہ کا روزہ رکھیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :“یوم عرفہ کا روزہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ آئندہ و گزشتہ دو سالوں کے گناھوں کو مٹا دیتا ہے “۔ ( صحیح مسلم )

لہٰذا موقع ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے پہلے اسے غنیمت سمجھیں۔ یہ زندگی غنیمت ہی ہے۔ اس کے دن بہت تھوڑے ہیں اور عمریں بہت ہی چھوٹی چھوٹی ہیں۔اللہ تعالٰی امت مسلمہ کو حج بیت اللہ کے اس پیغام وحدت کو کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور امت کواس کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کو بحا ل کر نے کے قابل بنا دے۔آمین
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308066 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More