کراچی میں گرمی کی شدت کے ساتھ بجلی کی غیر اعلانیہ
لوڈشیڈنگ بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے
کہ وہ شہری بھی اس اذیت کا سامنا کر رہے ہیں جو نہ صرف باقاعدگی سے بجلی کے
بل ادا کرتے ہیں، بلکہ بجلی چوری جیسے جرم سے کوسوں دور ہیں۔ اس ظالمانہ
لوڈشیڈنگ کا سب سے بڑا بوجھ اس کمزور طبقے پر پڑ رہا ہے جو پہلے ہی زندگی
کی مشکلات سے دوچار ہے۔ شدید گرمی میں بزرگوں کی صحت بگڑ رہی ہے، بلڈ پریشر،
شوگر اور دمے کے مریض بے حال ہیں۔ بچوں کی تعلیم بھی بُری طرح متاثر ہو رہی
ہے۔ نہ سکون سے پڑھائی ہو پاتی ہے، نہ رات کو نیند آتی ہے۔ گرمی سے بلکتے
معصوم چہرے اور بے بسی سے پنکھا جھلتی مائیں۔ یہ کسی ڈرامہ کے مناظر نہیں
بلکہ یہ مناظر اب کراچی کے ہر علاقے کی پہچان بن چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا دیانتداری کا یہی صلہ ہے؟ کیا یہ وہی ملک ہے جہاں
ایماندار کو عزت، سہولت اور تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے؟ اگر کوئی شہری
باقاعدگی سے اپنے واجبات ادا کرتا ہے تو اسے کن بنیادوں پر بجلی سے محروم
رکھا جا رہا ہے؟
کے الیکٹرک کی پالیسی کے مطابق وہ پورے فیڈر کی لوڈشیڈنگ کرتے ہیں، چاہے
وہاں کے چند گھرانے ہی بجلی چوری میں ملوث ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ درجنوں
ایماندار صارفین بھی اس ’اجتماعی سزا‘ کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف
شہریوں میں بےچینی اور غصہ پیدا ہو رہا ہے بلکہ یہ احساس بھی جنم لے رہا ہے
کہ اس ملک میں ایمانداری کمزوری ہے، خوبی نہیں۔
دنیا بھر میں بجلی کی تقسیم اسمارٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ ہر
صارف کے لیے الگ سسٹم اور الگ کنٹرول کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جو بل دیتا ہے
اسے بلا تعطل بجلی ملتی ہے، جو بجلی چوری کرتا ہے اس کا کنکشن الگ سے منقطع
کیا جاتا ہے۔
اسمارٹ میٹر، پری پیڈ سسٹمز اور گرین فیڈر جیسے جدید، شفاف اور سائنسی حل
آج کی دنیا میں رائج ہو چکے ہیں، مگر افسوس کہ کراچی جیسے میگا سٹی میں اب
بھی بجلی کی تقسیم 1980ء کی فرسودہ پالیسیوں کے سائے میں ہو رہی ہے۔ وقت آ
گیا ہے کہ کے الیکٹرک غیر منصفانہ، اجتماعی سزا کے نظام کو خیرباد کہے اور
انصاف پر مبنی جدید نظام کی طرف پیش قدمی کرے۔ اس کے ساتھ حکومتِ وقت پر
بھی یہ لازم ہے کہ وہ عوام کی بقا، صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کے تحفظ
کے لیے سنجیدگی سے کردار ادا کرے، اور اس ادارے کو جواب دہ بنائے، نہ کہ
محض تماشائی بنی رہے۔
|