نابغہ روزگار ہستی، عظیم سیاستدان، حاجی عرفان احمد خان ڈاہا

حاجی عرفان احمد خان ڈاہا پاکستان کے نامور سیاستدان تھے شرافت ، دیانت ، صداقت ، عوامی خدمت اور پارٹی وفاداری کی عملی تصویر تھے۔ آپ کے صاحبزادے محمدخان ڈاہا قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ ڈاہا فیملی خانیوال کی سیاست کا محور و مرکز ہے۔ حاجی عرفان احمد ڈاہا کی اسلام ، پاکستان اور عوام کے لئے خدمات قابل ستائش ہیں۔ قوم عظیم رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔ ضلع خانیوال عبدالحکیم کے عوام یتیم ہو گئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔ آمین (ازقلم: حکیم احمد حسین اتحادی )

پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ میں بعض ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کردار، خلوص اور خدمت کے جوہر سے نہ صرف اپنے عہد کو منور کرتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن جاتی ہیں۔جو سیاست صرف خدمت خلق کے لیے کرتے ہیں، حاجی عرفان احمد خان ڈاہا کا شمار ایسی ہی نابغہ روز گار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست کو محض اقتدار کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت سمجھ کر عوامی خدمت کا وسیلہ بنایا۔ ان کی حیاتِ مستعار کردار، اصول پسندی دین داری مقصد تخلیق کی تکمیل اور ایثار کی ایک روشن تفسیر ہے، جس کا ہر باب صداقت اور خلوص کی روشنی سے مزین ہے۔

ڈاہا خاندان جنوبی پنجاب کا ایک باوقار، تعلیم یافتہ، اور دینی اقدار کا حامل خانوادہ ہے، جو علمی، اخلاقی اور روحانی میراث کے امین کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ حاجی عرفان ڈاہا اسی خانوادے کے فخر تھے جن کی ابتدائی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں علم، حلم، اور خدمتِ خلق کو اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ ان کی تعلیم خانیوال میں ہوئی، جہاں سے ان کے اندر سچائی، عاجزی اور علم دوستی کی بنیادیں استوار ہوئیں، جو بعد ازاں ان کی عوامی اور سیاسی زندگی میں نمایاں ہوئیں۔

حاجی عرفان احمد خان ڈاہا کو قرآن و سنت سے والہانہ محبت تھی۔ علماء سے محبت انکی صحبتوں سے فیض یابی اور ہر معاملہ میں علماء سے رہنمائی لینا انکا شعار تھا یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت دینی اقدار سے مزین، اور ان کا ظاہر و باطن اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار تھا۔ وہ دینی محافل میں شوق سے شرکت کرتے اور اپنی موجودگی سے روحانی فضا کو معطر کر دیتے۔ ان کی مجالس میں دین کی بات نہ صرف سننے کو ملتی بلکہ عمل کی ترغیب بھی پیدا ہوتی۔ انہوں نے دین کی خدمت کو زندگی کا مقصد جانا اور اپنے ہر قول و فعل میں شریعت کی روشنی کو نمایاں رکھا۔
ان کی شخصیت سادگی، وقار، اخلاق، اور دیانت کا حسین امتزاج تھی۔ ان کے لب و لہجے میں شائستگی اور انکساری کا رنگ ہوتا، جو ہر سامع کو متأثر کیے بغیر نہ رہتا۔ وہ ہمیشہ حق گوئی پر قائم رہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ ان کا دروازہ ہر وقت عوام کے لیے کھلا رہتا اور وہ بلا تفریق خدمتِ خلق میں مصروف رہتے۔ نمود و نمائش سے گریز اور عاجزی ان کی فطرت کا لازمی حصہ تھی۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور چار مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حاجی عرفان احمد خان ڈاہا نے سیاست کو عبادت جان کر نبھایا۔ بحیثیت پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ اور وزیرِ ٹرانسپورٹ پنجاب، ان کی بصیرت، تدبر اور دیانت مثالی رہی۔ ان کا ہر فیصلہ عوامی مفاد کا آئینہ دار اور ہر قدم قومی خدمت کا مظہر تھا۔ ان کا طرزِ سیاست اصول پسندی، شفافیت اور خلوص کا درخشاں نمونہ تھا، جو آج بھی رہنماؤں کے لیے مشعلِ راہ ہے.

ان کی سیاست محض اقتدار کی دوڑ نہ تھی بلکہ ایک نظریہ، ایک اصول، اور ایک مقصد تھا: عوامی خدمت۔ وہ ایوانِ اسمبلی میں عوامی مسائل کے ترجمان کے طور پر جانے جاتے اور ہر قانون سازی میں اپنے حلقے کے مفاد اور قومی ترقی کو مدنظر رکھتے۔ ان کی مسلم لیگ (ن) سے غیر متزلزل وابستگی اور وفاداری کا اعتراف پارٹی کی اعلیٰ قیادت، میاں نواز شریف، شہباز شریف، اور مریم نواز شریف نے بارہا کیا۔

حاجی صاحب نے کبھی ظلم، ناانصافی یا کرپشن کو برداشت نہ کیا۔ وہ ہمہ وقت مظلوموں کی آواز بنے رہے اور محروم طبقات کی ترجمانی کو اپنا دینی، اخلاقی اور سیاسی فریضہ جانا۔ ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ آج بھی انہیں محافظ، رہنما، اور محسن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کی سیاست میں شفافیت، استقامت، اور خلقِ خدا سے محبت ہمیشہ نمایاں رہی۔ وہ نہ صرف خود ایک نظریہ تھے بلکہ اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی نظریے پر کی۔ ان کے فرزند محمد خان ڈاہا آج والد کی سیاسی وراثت کے امین ہیں اور انہی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے عوامی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی محمد خان ڈاہا کی سیاسی سوجھ بوجھ، تعلیم و تدبر، اور عوامی شعور والد کی تربیت کا عملی مظہر ہے۔ حاجی عرفان خان ڈاہا اپنے سیاسی کارکنان کو کبھی محض سیاسی ورکر نہیں بلکہ اپنے خاندان کا فرد تصور کرتے۔ وہ ان کی فکری اور اخلاقی تربیت کا بھرپور اہتمام کرتے، اور ان کے ساتھ رہ کر سیاسی بصیرت، اصول پسندی اور شرافت سیکھنا ایک عملی درسگاہ کا تجربہ ہوتا۔ ان کی صحبت میں رہنے والوں نے ہمیشہ سچائی، قربانی اور عوامی جذبے کا درس پایا۔

ان کی رحلت پر پورا شہر، بلکہ پورا حلقہ، سوگوار تھا۔ ان کے جنازے میں عوام کا جم غفیر اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ صرف ایک سیاست دان نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک نظریہ، اور ایک زندہ تاریخ تھے۔ ان کی خدمات اور ان کی شفقت آج بھی خانیوال کی گلیوں، دروازوں، اور دلوں میں زندہ ہیں۔

جنوبی پنجاب کی معروف علمی سیاسی سماجی شخصیت رئیس المجلس الاسلامی باکستان، داعی امن، ایڈیشنل ڈائریکٹر انٹرنیشنل لنکجز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشید اظہر اور وطن عزیز پاکستان کی معروف اور قدیم علمی دانشگاہ جامعہ سعیدیہ سلفیہ خانیوال کیساتھ حاجی عرفان احمد خان ڈاہا مرحوم کی خاص وابستگی اور قلبی تعلق تھا دینی معاملات میں ہمیشہ ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشیداظہر سے رہنمائی لیتے جامعہ میں آ کر ہمیشہ اس بات کا اعتراف کرتے کہ جو سکون اور اطمینان قلب یہاں آکر حاصل ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے کبھی بھی جامعہ کے کسی مجلس سے غیر حاضر نہ ہوتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے فرزند ارجمند محمد خان ڈاہا ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشیداظہر کو اپنا بھائی کہتے ہیں،بے پناہ محبت کرتے ہیں، اور ہر معاملہ میں ان سے مشاورت کرتے ہیں رہنمائی لیتے ہیں، حاجی عرفان احمد خان ڈاہا کی وفات پر ان کے جنازہ کے بعد محمد خان ڈاہا کی خصوصی خواہش پر دوسرا جنازہ ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشیداظہر صاحب نے پڑھایا، اور تدفین کے موقع پر میت کو قبر میں اتارنا، قبر کی تیاری، قبر پر دعا الغرض ہر ہر قدم پر محمد خان ڈاہا نے ڈاکٹر حافظ مسعود کی رہنمائی میں ہر کام عین قرآن وسنت اور اسوہ رسول ﷺ کے مطابق سر انجام دیا، گزشتہ رات بھی ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشیداظہر کی معیت میں وفد کی صورت میں محمد خان ڈاہا سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ درجنوں ملاقاتی اور نامور شخصیات موجود تھیں لیکن اس کے باوجود محمد خاں ڈاہا سب سے بے نیاز ہوکر ڈاکٹر حافظ عبدالرشیداظہر مشاورت کرتے رہے، رہنمائی لیتے رہے۔ گھر سے اپنے بچوں کو بلا کر ملاقات کروائی سر پر پیار دلوایا اور دعائیں لیں۔اور خصوصی درخواست کی کہ یہ تعلق پہلے سے گہرا ہونا چاہئے بلکہ فیملی ریلیشن میں تبدیل ہونا چاہئے اور مجھے آپکی رہنمائی اور مشاورت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔امید ہے کہ آپ اپنے بھائی کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشیداظہر کی زبان سے بھی ہمیشہ حاجی عرفان خان کی نیکی، پرہیزگاری اور شرافت کی تعریف ہی سنی۔ حاجی عرفان خان ڈاہا مرحوم سے میری آخری ملاقات رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پاکستان اسلامک کونسل کے زیر اھتمام جامعہ سعیدیہ سلفیہ کے خانیوال میں سالانہ افطار ڈنر پر ہوئی، جہاں حسبِ معمول ان کی شفقت آمیز اور محبت بھری طبیعت نے دل موہ لیا۔ وہ ایک نیک دل، مہربان اور اعلیٰ ظرف انسان تھے، جن کی کمی کبھی پوری نہ ہو سکے گی۔ میرے والد محترم، ممتاز روحانی شخصیت مولانا محمد حسین، ہمیشہ حاجی عرفان خان کے حسنِ سلوک، اخلاقِ کریمانہ، دینی وابستگی، اور عوامی خدمات کے مداح رہے۔ وہ ان کے لیے دعائیں کرتے اور ان کی خدمات کو خلوص سے سراہتے۔ ان کی گفتگو میں ہمیشہ حاجی صاحب کے لیے محبت اور عزت کا عنصر غالب ہوتا۔

حاجی صاحب نے اپنے بیٹے محمد خان ڈاہا کو وصیت کی تھی: "کبھی ظالم کا ساتھ نہ دینا، ہمیشہ مظلوم کا دست و بازو بننا۔ مظلوم کی دعا تمہاری کامیابی کی کنجی ہو گی۔" یہ الفاظ آج بھی ایک اصولی سیاست کے استعارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی میں خاموشی سے انجام دی جانے والی رفاہی سرگرمیاں، جن میں یتیموں کی کفالت، غریبوں کی امداد، مستحق مریضوں کا علاج اور مساجد و مدارس سے تعاون شامل ہے، آج بھی ان کی نیک نیتی اور خلوص کی گواہی دیتی ہیں۔ ان کی فیملی اس مشن کو نیک نیتی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کی یاد میں دل سے اٹھنے والی ایک صدا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حاجی عرفان احمد خان ڈاہا کی حیاتِ طیبہ ہمیں سکھاتی ہے کہ کردار، دیانت، اور بے لوث خدمت سے معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ وہ ایک ایسا چراغ تھے جو تاریکیوں میں روشنی بانٹتا رہا۔ ان کا وجود خلوص کا استعارہ اور ان کی جدوجہد آئندہ نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، ان کے خاندان کو صبر و تسلی عطا کرے، اور محمد خان ڈاہا کو اپنے والد کے مشن کو مزید عزت و وقار کے ساتھ آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔


 

Hakim AHMED HUSSAIN ITTHADI
About the Author: Hakim AHMED HUSSAIN ITTHADI Read More Articles by Hakim AHMED HUSSAIN ITTHADI: 24 Articles with 22823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.