رسمی تعلیم اور حقیقی تَعَلّم

شریف امروہوی

کون سا انسان ہے جس کے لیے روٹی، کپڑا اورمکان ناگزیر نہیں؟ ہر انسان پیٹ بھر کھانا، تن ڈھانپنے بھر کپڑا اور سر چھپانے کا ٹھکانہ چاہتا ہے۔ مگر کیا یہی سب کچھ ہے جسے زندگی کا حاصل سمجھا جائے؟ یقیناً نہیں۔ جب انسان کا پیٹ بھر چکتا ہے، تن پر کپڑے سج چکتے ہیں اور وہ کسی پرسکون جگہ بیٹھ کر زندگی کے بارے میں سوچتا ہے تب اسے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ درکار ہے۔

اللہ نے ہر انسان کو جسم کے اندر ایک ذہن بھی عطاءکیا ہے۔ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد ہر انسان اپنے لیے امکانات کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کے بغیر اس کی زندگی ادھوری ہے۔ انسان تعلیم حاصل کرے یا نہ کرے، وہ اسے زندگی کی بنیادی ضرورت ضرور تسلیم کرتا ہے۔ تعلیم واحد ذریعہ ہے جو انسان کو اچھے برے کی تمیز، معاشرے میں بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے کا شعور، اپنے بارے میں سوچنے کی توفیق اور کائنات سے رشتہ قائم کرنے سے متعلق تحریک دیتا ہے۔

ویسے تو انسان ماں کی گود میں آتے ہی سیکھنے کا عمل شروع کردیتا ہے جیسے کھانا پینا، بیٹھنا چلنا، رونا ہنسنا وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سبھی کچھ انسان میں جبلّی طور پر یا ”بائی ڈیفالٹ“ موجود ہوتا ہے۔ جو کچھ اللہ نے انسان کی سرشت میں رکھا ہے وہ رفتہ رفتہ اُس پر منکشف ہوتا رہتا ہے۔ تعلیم کے بغیر بھی انسان زندگی بسر کر ہی لیتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں زندگی خاصی خام شکل میں ہوتی ہے۔ شعور کی پختگی اور وجود کا نکھار تعلیم کے دم سے ہے۔ جن باتوں کو ہم اپنے طور پر بھی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں اُسے تعلیم کی مدد سے زیادہ عمدگی سے سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

رسمی تعلیم ہر انسان کے لیے ایک معمول کا درجہ رکھتی ہے۔ بچوں کو اسکول کی تعلیم ان کی مرضی سے نہیں ایک رسمی کارروائی کے طور پر دلائی جاتی ہے۔ اگر سرکاری سطح پر تعلیم کی سہولت میسر ہو یا نجی اداروں میں داخلہ دلانے کی توفیق ہو تو والدین بچے کو اسکول بھیجنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اسکول میں داخلہ کسی بھی بچے کے لیے انتخاب کا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ معاشرے کا چلن ہے۔ اسکول کی تعلیم اسے معاشرے سے بہتر طور پر ہم آہنگ ہونے میں مدد دیتی ہے۔ وہ زندگی کو سمجھنے کے قابل ہوتا جاتا ہے۔ مختلف تعلیمی مراحل سے گزر کر انسان معاشرے کے لیے بہتر موزونیت حاصل کرتا جاتا ہے۔ مختلف سطح کے تعلیمی ادارے انسان کو معاشرے کے لیے زیادہ قابل قبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو ایک رسمی عمل اور محض روزگار کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ عام سی تعلیم انسان کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتی جاتی ہے۔ کم لوگ اس بات کو محسوس کرتے یا سمجھ پاتے ہیں کہ تعلیم دراصل زندگی بھر سیکھتے رہنے کا عمل ہے۔ تعلیمی ادارے تو ہمیں تعلیم کے حصول کے لیے محض تیار کرتے ہیں۔ عام طور پر والدین بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اسکول یا کالج کی سطح تک جو کچھ بھی پڑھ لیا ہے بس وہی بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ گویا سمندر کی مچھلی کو کنویں کے مینڈک میں تبدیل کرنا ہے!

والدین چاہتے ہیں کہ اسکول یا کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے پر ان کی اولاد اچھی ملازمت حاصل کرلے۔ اور اگر ملازمت مل جائے تو سمجھ لیجیے زندگی کی ابتداءہوگئی۔ لڑکیوں کے ساتھ تو کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ ناانصافی دیکھنے میں آتی ہے کہ ابھی لڑکی نے انٹرمیڈیٹ ہی پاس کیا ہے اور اس کی شادی کی باتیں شروع ہوگئیں۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتی ہے اور ابھی تعلیم کا سلسلہ چل ہی رہا ہوتا ہے کہ موزوں رشتہ آنے پر شادی کردی جاتی ہے۔ اگر لڑکی نے زندگی کے لیے کوئی منصوبہ بندی کر رکھی ہو تب بھی تمام معاملات کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔ تمام ارادوں کی بساط پلک جھپکتے میں لپیٹ دی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مشورہ دے تب بھی جواب یہی ملتا ہے کہ لڑکی ذات ہے، اچھا ہے اپنے گھر کی ہو جائے، ہمیں اِس سے کون سی نوکری کرانی ہے۔ عام والدین کی یہ محدود سوچ ہی انسان کو بہت سے معاملات میں محدود کردیتی ہے۔

تعلیم دنیوی ہو یا دینی، ہم نے دونوں کو رسمی کارروائی کا درجہ دے دیا ہے۔ آج کل بچوں کو دینی تعلیم دلانے کا رجحان بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ دینی تعلیم کس طور دلانی چاہیے اور اس کا مصرف کیا ہے؟ بہت سے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو حافظ بنانے سے وہ اعلیٰ معیار کی زندگی کے تمام لوازم سیکھ لیتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر بچے کو حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ قرآن کے معانی کی تعلیم بھی دی جائے تو وہ دین کی تبلیغ کے لیے بہتر طور پر تیار ہوسکتا ہے۔ قرآن کو محض حفظ کرلینا ہمارے لیے کافی نہیں۔ اس کے مفاہیم سمجھ کر ان پر عمل کرنا بھی تو ناگزیر ہے۔ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے تمام معانی کو سمجھنے میں بہت فرق ہے۔ قرآن کی تشریح و تفسیر پر نظر ڈالنا بھی تو ہمارے لیے ناگزیر ہی ہے۔ اسی صورت ہم اللہ کے پیغام کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔

اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ جو لوگ پڑھ لکھ کر بہتر معاشی امکانات کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہی کامیاب کہلاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کامیابی کیا ہے؟ کیا بہتر ملازمت حاصل کرنے کو کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا شاندار کیریئر ہی کامیابی ہے؟ کیا ہر بڑے وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، ماہر تعلیم یا نامور صحافی کو کامیاب انسان قرار دیا جاسکتا ہے؟ کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد دنیا کو سمجھنا اور اپنے آپ کو دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا ہے۔ اگر کوئی انسان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اسے حقیقی کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم پانے کے بعد بہتر معاشی امکانات حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی ظاہری شان و شوکت قابل دید ہوتی ہے۔ مگر ان کی روحانی ترقی برائے نام بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی حالت میں ہم انہیں کامیاب قرار نہیں دے سکتے۔ اگر تعلیم نے کسی انسان کے دل میں دوسروں کا درد پیدا نہ کیا ہو تو اسے بہتر اور کامیاب انسان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بہت سے کامیاب انسان ہر وقت زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹرز نے دولت کے حصول کو زندگی کا بنیادی مقصد سمجھ لیا ہے۔ اگر کسی کو اس حالت میں لایا جائے کہ زخم لگنے کے بعد خون بہہ رہا ہو یا شدید بیماری کے بارے نبض ڈوبتی جارہی ہو تو ڈاکٹرز کو عام طور پر یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اس سے چیک اپ اور میڈیکیشن کی فیس وصول ہوسکے گی یا نہیں!

ایک زمانہ تھا جب معلم چاہتا تھا کہ اس سے تعلیم پانے والے زندگی میں کچھ بن جائیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ مقررہ وقت پر کلاس میں آنے اور پرائیویٹ ٹیوش لینے والوں کو میکانیکی انداز سے پڑھایا جاتا ہے اور فیس کے بدلے محض رسمی انداز سے کچھ بتادینے کو تعلیم سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ سوچ کا دیوالیہ پن ہی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔

کامیاب وکیل وہ ہے جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر دکھائے۔ مقدمات کو طول دینے میں کامیاب ہونے والے زیادہ کامیاب وکیل کہلاتے ہیں۔

جب تک ہم تعلیم کو زندگی بھر کا معاملہ قرار نہیں دیں گے، اپنے وجود اور اپنی اولاد کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ معاشرے میں جس قدر بھی بگاڑ ہے، تعلیم کو رسمی معاملہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے۔ تعلیم ہی انسان کو بہتر زندگی کا شعور عطاءکرتی ہے۔ جب تک ہم تعلیم کو پوری زندگی پر محیط قرار نہیں دیں گے تب تک کنویں کے مینڈک ہی رہیں گے، زندگی کے سمندر میں تیرنے اور زندگی کا تنوع دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ زندگی پر محیط تعلیم ہی بزرگوں کے احترام کا شعور عطاءکرتی ہے۔ کسی کے دکھ کو سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اس کی باضابط تعلیم دی گئی ہو۔ قانون کی بالا دستی کا تصور ذہن میں اسی وقت جنم لیتا ہے جب تعلیمی عمل کے دوران ہمارے ذہن میں اس کا بیج ڈالا گیا ہو اور اس کی آبیاری بھی کی گئی ہو۔

اگر ان تمام امور کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے ہم ادھورے ہیں یا ہماری تعلیم ادھوری ہے۔ یقیناً اسکول، کالج یا یونیورسٹی کی سطح پر حاصل کی جانے والی تعلیم سب کچھ نہیں۔ زندگی کو سمجھنا اس سے کہیں الگ اور منفرد عمل ہے۔ اس کے لیے مطالعہ اور مشاہدہ ناگزیر ہے جو بحیثیت مجموعی زندگی کو تنوع عطاءکرتا ہے۔ وسیع تر مفہوم میں اِسی کو تعلیم کہتے ہیں۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525404 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More