صدر معلم ہائی سکول جورا مقبول حسین یاد

کچھ باتیں بعید از عقل و قیاس ٹھہرتی ہیں ایک انسان کسی جملے کو جب ادا کرتا ہے تو ضروری نہیں دوسرئے تک پہنچنے والا وہ جملہ ادا کرنے والے کی فہم و فراست کے عین مطابق ہو ۔اس کے درست ادارک کے لیے ضروری ہے ادا ہونے والے لفظ و جملے کو سننے والا شخص دوسرئے کی زبان ،عقل ،فہم و فراست سے عاری نہ ہو اور اس کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس کا ادراک ضروری ہے ماشاللہ ،الحمدو للہ کشمیر کے اندر ہر دوسرا شخص مسلمان ہے لیکن اس کے مومن ہونے کا ثبوت اللہ اور اس کے درمیان ہوتا ہے نبی ﷺنے ایک اصحابی زید بن حارثہ سے پوچھا تیری صبح کس حال میں ہوئی انہوں نے فرمایا یا رسول میری صبح اس حال میں ہوئی کہ میں مومن تھا اس سوال کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا زید بن حارثہ غور کر کیا کہہ رہا ہے ،،ایک صحابی کہہ رہے ہیں میں نے حالت ایمانی میں صبح کی اور حضورﷺ نے تنبیہ کی اس سے ثابت ہوا ایمان اتنی سستی اور آسان چیز نہیں ،،جورا وزیر تعلیم کے استقبالیہ پروگرام میں صدر معلم مقبول حسین یاد نے جس جملے کا استعمال کیا کوئی بھی عالم و فاضل یہ کہہ سکتاکہ یہ اسلام کے منافی و متصادم ہے چونکہ موقع کی مناسبت سے جو جملہ استعمال ہوا اس کے ہر گز معنی و مفہوم یہ نہیں کہ ان کی بات نعوز باللہ اسلام کے خلاف تھی صدر معلم بحثیت معلم جب شعبہ ایجوکیشن سے منسلک ہوئے تو اس وقت شاہد ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے زندگی میں مختلف نشیب و فراز بھی دیکھے گھر گھر علم کا نور و فیض پہنچانے والی شخصیت کس طرح اسلام کے خلاف بات کر سکتی ہے جس معلم سے ہم نے دین کے متعلق پڑا اور اس پر عمل کرنے کی سعی کی کیا وہ ہستی خود اسلام کے منافی ہو اور ہم اسلام سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں اس بات کو عقل تسلیم نہیں کرتی زبان حال سے سب نے سنااور وہاں پہ موجود وزیر تعلیم کو بھی سمجھ نہیں آئی صدر معلم کیا کہہ رہے ہیں ؟ہاں سمجھ ضرور آئی وزیر تعلیم ایک بہت بڑئے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد بھی عالم تھے اور وہ خود بھی ماشاللہ عالم ہیں اور پابند صوم الصواة ہیں اگر صدر معلم نے غلط بات کہی ہوتی تو کیا وہاں پہ موجود دین سے واقفیت رکھنے والے ان کو منع نہ کرتے اس سے ثابت ہوا ان کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پروپگنڈہ کیا گیا اور اس کو میڈیا پر اچھالاگیا ان کی عزت نفس کو مجروع کیا گیاان کے پورئے خاندان کے لیے ٹینشن کریٹ کی گئی اس ایشو کو ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر نا جانے کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو آئے روز ایک معلم پہ کیچڑ اچھال رہی ہیں ۔زمانہ طالب علمی کی بات ہے ایک معلم کے ساتھ کسی گستاخ نے گستاخی کر دی تو ہم طالب علم سڑکوں پہ نکل آئے اور احتجاجی مظاہرئے جلسے و جلوس کا انعقاد کیا اور ایک استاد کے مقام کو بحال کروانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ۔اور تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک اس گستاخ معلم کو سزا دلوائی یہ تھا اس وقت ایک معلم کا مقام آج ہم سے اغیار نے ادب تو چھین ہی لیا مگر اس کے ساتھ ساتھ غیرت ایمانی بھی چھین لی تو کیا آج کے معلم کی جو عزت نفس مجروع ہوئی اس کا ازالہ ممکن ہے ؟اگر ممکن ہے تو کس حد تک ،جب انسانیت مر جائے تو گلہ کس سے؟سرکار دو عالم ﷺ پوری کائنات کے معلم تھے اور ان کے امتی ان کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ان کے وارث ہیں اس مناسبت سے بھی معلم کا ایک اعلیٰ مقام ہے ۔مقبول حسین یاد کا معاشرئے اور سوسائٹی میں ایک مقام ہے وہ مقام ان کو ہم نے نہیں دیا بلکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے میں جسے چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں جسے چاہتا ہوں زلت دیتا ہوں میں ہرچیز پہ قادر ہوں،،تو صدر معلم کو جو عزت ملی وہ اللہ رب العزت نے عطا فرمائی اب ان کی عزت کرنا ہم سب پہ فرض ہے چونکہ عزت دینے والا خود عزتوں کا مالک ہے اگر ہم نے ان کی عزت نہ کی اس کامطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ جس کو عزت دئے اور ہم اس کا مقابلہ کریں اور باعزت کو زلیل کرنے کی کوشش کریں تو ہمارا مقابلہ عزت یافتہ بندئے سے نہیں بلکہ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کی مخالفت کر رہے ہیں ۔تو ہم سب مسلمان ہیں بحثیت مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے ہم کسی شریف شہری کی عزت و تکریم کریں نہ کہ شرفاءکو معاشرئے اور سوسائٹی میں اتنا بد نام کر دیں کہ اس کے اعلیٰ مقام سے گھسیٹ کر اپنے جیسے مقام پہ لے آئیں کبھی ملنگی کا بیان آتا ہے مقبول حسین یاد نے سر شرم سے جھکا دیا کبھی کسی دوسرئے ملنگ کا بیان اسلام مفروضوں کا نام نہیں اور نہ ہی ملنگوں کی وراثت دین امن و آشتی کا درس دیتا ہے والدین اساتذہ دیگر بزرگوں کے اداب و احترام کا سبق دیتا ہے نہ کہ ان سے بد سلوکی کا ۔ضروت اس امر کی ہے ہمیں اپنے استاد و والدین کی عزت کرنی چاہیے یہی دین ہے یہی مسلمانی یہی ایمان ہے۔یہ احترام ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ہمیں اساتذہ کی قدر کرنی ہو گی اور معاشرئے کے اندر استاد کے مقام کو بحال کرنا ہو گا۔ورنہ رسوائی ہمارا مقدر بن جائے گی اور مقام معلم پہ کوئی حرف نہیں آئے گاتو میں اپنے غیور ،بہادر ،ناڈر ،غیرت مند کشمیری بھائیوں سے امید رکھ سکتا ہوں وہ ایک معلم کے مقام کو پہچان جائیں گئے ،جی ہاں نیلم ویلی کی تاریخ میں کئی ایسی مائیں موجود ہیں جن کی کوکھ سے ولی اللہ نے جنم لیااور صحافت کے مقام پر بابائے صحافت طارق معمود چغتائی جیسے صحافی پیدا کیے ماں تجھے سلام ،،استاد تیری عظمت کو سلام،،
Zia Sarwar Qurashi
About the Author: Zia Sarwar Qurashi Read More Articles by Zia Sarwar Qurashi: 43 Articles with 45989 views

--
ZIA SARWAR QURASHI(JOURNALIST) AJK
JURA MEDIA CENTER ATHMUQAM (NEELUM) AZAD KASHMIR
VICE PRESIDENT NEELUM PRESS CLUB.
SECRETORY GENERAL C
.. View More