پاکستان اور افغانستان: ایک نئے دور کا آغاز
(Ghulam Murtaza Bajwa, SIALKOT)
پاکستان اور افغانستان: ایک نئے دور کا آغاز
|
|
|
ایوان اقتدارسے |
|
افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی سفارتی گرم جوشی اور باہمی تعاون کے اشارے بلاشبہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ برسوں کی کشیدگی، بداعتمادی اور باہمی الزامات کے بعد اگر دونوں ممالک نئے سرے سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو اسے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہیے۔نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار کا حالیہ اعلان کہ پاکستان کابل میں باضابطہ سفیر تعینات کرے گا، ایک اہم اور عملی قدم ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف دو طرفہ سفارتی خلا کو پر کرے گا بلکہ تجارت، سرحدی تعاون، انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی ترقی کے متعدد شعبوں میں مؤثر رابطے قائم کرنے میں مددگار ہوگا۔ 19 اپریل کو وزیر خارجہ کا دورہ کابل اور 21 مئی کو بیجنگ میں سہ فریقی وزرائے خارجہ ملاقات اس پیشرفت کی کڑی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اب ایک دوسرے کی حساسیت اور ترجیحات کو سنجیدگی سے سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔بیجنگ اجلاس میں افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی، اور افغان طالبان کمانڈر سعید اللہ سعید کا ”فتنہ الخوارج“ کے خلاف واضح پیغام، اس بات کا اشارہ ہے کہ کابل کی عبوری حکومت میں نظریاتی اور عملی سطح پر کچھ تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ تبدیلی صرف الفاظ کی حد تک نہیں، بلکہ اس کے اثرات زمینی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اگر افغان قیادت واقعی دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ ہے اور خطے میں استحکام چاہتی ہے تو یہ پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے حوصلہ افزا پیش رفت ہوگی۔تاہم افغانستان کی جانب سے ماضی میں بھارت سے خفیہ روابط، خاص طور پر یو اے ای میں ہونے والی ملاقاتیں، پاکستان کے لیے تشویش کا باعث رہی ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغان قیادت کو اس تاریخی سبق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت نے ہمیشہ اپنے قریبی ہمسایہ ممالک کی خودمختاری اور استحکام کو اپنے مفادات پر قربان کیا۔ نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک اس کی واضح مثالیں ہیں، جو آج بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے نالاں ہیں۔افغانستان کے پاس ترقی، خوشحالی اور خودمختاری کا حقیقی راستہ پاکستان اور چین سے ہو کر گزرتا ہے۔ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے منصوبے افغانستان کے لیے سنہری مواقع فراہم کرتے ہیں جن سے وہ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کا معاشی پل بن سکتا ہے۔ یہ افغان قیادت کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ محض وقتی فائدے اور بیرونی دباؤ کے تحت فیصلے کرتی ہے، یا خطے میں اپنے دیرپا مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنے حقیقی اتحادیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک نازک مگر فیصلہ کن موڑ پر ہیں۔ اگر افغان حکومت موجودہ موقع کو سمجھتے ہوئے چین اور پاکستان کے ساتھ سنجیدہ اور پائیدار شراکت داری کی طرف بڑھتی ہے تو نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوگا بلکہ خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔اب فیصلہ کابل کی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔دوستی، ترقی اور ہم آہنگی کی راہ پر چلنا ہے، یا تاریخ کی پرانی غلطیوں کو دہرا کر ایک اور موقع گنوا دینا ہے۔
|