دوستی، صحافت اور کھیل کے رشتے کی نئی جہت
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore, Pakistan)
|
غلام مرتضیٰ باجوہ |
|
پاکستان اور بنگلہ دیش، دو ایسے ممالک ہیں جن کے درمیان تاریخ، ثقافت، زبان اور جذبات کا ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ اگرچہ ماضی کی تلخیاں بعض اوقات ان تعلقات پر اثر انداز ہوتی رہیں، لیکن عوامی سطح پر محبت، اپنائیت اور تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ خاص طور پر کھیل، صحافت، ثقافت اور ادب ایسے ذرائع ہیں جو ان دونوں ممالک کو قریب لانے میں ہمیشہ سے معاون رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیشی اسپورٹس جرنلسٹس کے ایک وفد کا لاہور پریس کلب کا دورہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس نے نہ صرف صحافتی رابطوں کو مضبوط کیا بلکہ دونوں ممالک کے مابین دوستی کے رشتے کو ایک نئی توانائی بخشی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین صحافتی اور ثقافتی تبادلے کی تاریخ طویل ہے۔ قیامِ بنگلہ دیش کے بعد ابتدا میں تعلقات سرد رہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک نے سفارتی، تجارتی اور ثقافتی سطح پر ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کی۔ صحافت نے ان تعلقات کو بہتر بنانے میں ہمیشہ ایک پل کا کردار ادا کیا۔ مختلف ادوار میں صحافیوں، مصنفین اور ادیبوں کے وفود نے ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کیا جس سے عوامی سطح پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین جاری ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سیریز کی کوریج کے لیے پاکستان آنے والے بنگلہ دیشی اسپورٹس جرنلسٹس کے وفد نے لاہور پریس کلب کا دورہ کیا۔ یہ دورہ لاہور پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری عمران شیخ کی دعوت پر عمل میں آیا۔ وفد میں حسنین الرحمن، سیف الروپک، شہاب احسن خان اور اکرام حسین شامل تھے۔ ان صحافیوں نے نہ صرف لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کی بلکہ مقامی صحافیوں سے ملاقاتوں کے ذریعے پیشہ ورانہ تجربات کا تبادلہ بھی کیا۔ لاہور پریس کلب میں صدر ارشد انصاری، نائب صدر صائمہ نواز، جوائنٹ سیکرٹری عمران شیخ، اور گورننگ باڈی کے رکن سید بدر سعید نے مہمان صحافیوں کا شاندار استقبال کیا۔ صدر ارشد انصاری نے اپنے خطاب میں اس دورے کو دوستی، ہم آہنگی اور صحافتی رابطوں کی مضبوطی کا مظہر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام ایک دوسرے کے دلوں میں بستے ہیں، اور دونوں ممالک کے مابین ایسے رابطے لازوال دوستی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین نے بھی لاہور پریس کلب کا دورہ کیا تھا اور صحافتی تعلقات کے فروغ پر زور دیا تھا۔ انہوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے مابین صحافیوں، ادیبوں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کے وفود کا باقاعدہ تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ باہمی سمجھ بوجھ، رواداری اور بھائی چارے کو فروغ حاصل ہو۔کھیل، خاص طور پر کرکٹ، جنوبی ایشیا میں ایک مشترکہ جنون کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کرکٹ کے عالمی منظرنامے پر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کرکٹ سیریز نہ صرف میدان میں دلچسپی پیدا کرتی ہیں بلکہ سفارتی سطح پر نرم طاقت (soft power) کے طور پر تعلقات کو بہتربنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسپورٹس جرنلسٹس کے اس دورے نے اس نرم طاقت کو اور بھی مو ثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ بنگلہ دیشی وفد نے لاہور پریس کلب کی میزبانی کو بے حد سراہا اور اسے یادگار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی صحافیوں سے ملاقات، تاریخی مقامات کی سیر اور پاکستانی مہمان نوازی نے ان کے دل جیت لیے ہیں۔ وفد کے اراکین نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے صحافیوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق کی بنیاد بنے گا۔ اس موقع پر مہمانوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جہاں صحافیوں نے غیر رسمی ماحول میں ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی حاصل کی۔ لاہور پریس کلب کی ہاسپیٹلیٹی کمیٹی کے رکن محمد بابر اور سینئر اسپورٹس جرنلسٹ محمد اقبال ہارپر بھی موجود تھے۔ ان تمام نشستوں میں نہ صرف صحافت بلکہ کھیلوں کی صورتحال، عوامی رجحانات اور میڈیا کے کردار پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی عوامی سطح پر تعلقات ہمیشہ مثبت رہے۔ 1980 کی دہائی میں بنگلہ دیشی فلموں، موسیقی اور ڈراموں کو پاکستان میں سراہا گیا۔ اسی طرح پاکستانی ادب، ٹی وی ڈرامے اور گلوکار بنگلہ دیش میں مقبول رہے۔ 1990 کی دہائی میں بنگلہ دیشی صحافیوں کے متعدد وفود پاکستان آئے اور مشترکہ کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ 2002 میں ڈھاکہ میں ہونے والی ساؤتھ ایشین جرنلسٹس کانفرنس میں پاکستانی صحافیوں کی نمائندگی کو بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اس دورے کو مستقبل کے لیے ایک خوش آئند اور مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر اس طرح کے صحافتی، ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں کو باقاعدگی سے فروغ دیا جائے تو دونوں ممالک کے عوام میں ہم آہنگی اور سمجھ بوجھ بڑھے گی۔ تجویز دی گئی ہے کہ دونوں ممالک کے پریس کلبز باقاعدہ مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کریں تاکہ وفود کا تبادلہ ایک باقاعدہ نظام کے تحت ہو۔ میڈیا اس وقت دنیا کی طاقتور ترین قوتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر میڈیا مثبت سوچ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے تو وہ ایسی فضا پیدا کر سکتا ہے جس میں عوامی رابطے، باہمی تعاون، علاقائی امن اور مشترکہ ترقی ممکن ہو۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے صحافیوں کی یہ ملاقات اسی سوچ کا عملی مظہر ہے۔ بنگلہ دیشی اسپورٹس جرنلسٹس کا لاہور پریس کلب کا دورہ ایک اہم اور قابل تحسین قدم ہے جو دونوں ممالک کے درمیان صحافتی تعاون، عوامی رابطے اور بین الثقافتی ہم آہنگی کے فروغ کی ایک روشن مثال ہے۔ اس دورے سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھا جائے تو دوستی، بھائی چارے اور ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔یہ دورہ نہ صرف صحافتی تاریخ کا ایک یادگار باب ہے بلکہ مستقبل میں دونوں ممالک کے مابین پائیدار تعلقات کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے تاکہ جنوبی ایشیا ایک پرامن، باہمی تعاون اور ترقی کی راہ پر گامزن خطہ بن سکے۔ |