کشمیر، پانی اور علاقائی امن: پاکستان کا پیغام
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
|
ایوان اقتدارسے |
|
پاکستان میں عیدالاضحی کے موقع پر سیاسی اور عسکری قیادت کے حالیہ بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ ملکی پالیسی کا محور اب صرف داخلی نہیں بلکہ خارجی اور دفاعی ترجیحات کی جانب بھی متوجہ ہو چکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر اور بلاول بھٹو زرداری نے جس تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر، بھارت کی آبی جارحیت اور دہشت گردی کے معاملے کو اجاگر کیا، وہ پاکستان کی پختہ اور متفقہ پالیسی کا اظہار ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے عیدالاضحی کے موقع پر ملائیشیا، ترکیہ، تاجکستان، ایران، مصر، کویت، ازبکستان، اردن، بحرین اور دیگر مسلم ممالک کے سربراہان سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے نہ صرف تہنیتی پیغامات کا تبادلہ کیا بلکہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر ان کے تعمیری کردار کی تحسین بھی کی۔ یہ روابط پاکستان کی فعال خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے مسلم دنیا کو کشمیر اور علاقائی امن جیسے معاملات میں متحرک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان رابطوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر، آبی تنازع اور سرحدی کشیدگی کو محض دوطرفہ مسئلہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے بین الاقوامی اور امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ بنا کر اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ خاص طور پر جب بھارتی حکومت کی جانب سے بارہا یکطرفہ اقدامات کیے جا رہے ہوں تو ایسے سفارتی رابطے پاکستان کے مو¿قف کو اخلاقی و سفارتی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے عید کے روز لائن آف کنٹرول کے اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں کے ساتھ عید منائی اور ان کے جذبے کو سراہا۔ ان کا یہ کہنا کہ”محاذِ جنگ پر عید منانا قومی فریضے کی تکمیل ہے“دراصل فوج کے اس عزم کا اظہار ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کے جواب میں مکمل تیاری کا عندیہ دیا اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو دہرایا۔ ان کا بیان نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ دشمن کو ایک مضبوط پیغام بھی دیتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور کسی قیمت پر کشمیری عوام کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گی۔سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بھارت کو خطے میں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے جو کہ سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 24 کروڑ عوام کا پانی روکنا جارحیت کے مترادف ہے اور بھارت یکطرفہ طور پر معاہدے کو ختم نہیں کر سکتا۔ بلاول بھٹو کا یہ بیان کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر یکطرفہ شرائط پر نہیں، قابل غور ہے۔ ان کے مطابق بھارت کے ساتھ مذاکرات اس وقت ہی نتیجہ خیز ہوں گے جب کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے بنیادی مسائل پر کھل کر بات ہو۔ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کا سب سے پرانا اور حل طلب تنازع ہے۔ جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اسے حل نہیں کیا جاتا، خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ خود بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی تھی۔پاکستان کی قیادت نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور جارحانہ اقدامات نے اس عمل کو مفلوج کر دیا ہے۔ حالیہ بیانات میں یہ عزم دہرایا گیا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو نہ بھلایا جائے گا اور ان کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم ایک عالمی شہرت یافتہ معاہدہ ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ اس معاہدے کی روح کو مسخ کر کے پاکستان کو آبی قلت سے دوچار کرے۔ حالیہ بیانات میں پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام بھارت پر لگایا گیا ہے، جو ایک سنگین پیشرفت ہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ میں مو¿ثر انداز میں اٹھائے تاکہ بھارت پر دباو¿ ڈالا جا سکے۔ ساتھ ہی، پاکستان کو اپنی آبی منصوبہ بندی کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا تاکہ داخلی طور پر آبی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس وقت مسئلہ کشمیر، بھارت کی دہشت گردی اور آبی جارحیت پر ایک مو¿قف پر متفق نظر آتی ہے۔ یہ قومی یکجہتی کسی بھی کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ پاکستانی میڈیا، دانشور طبقہ اور سول سوسائٹی کو بھی اس بیانیے کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ بین الاقوامی سطح پر مو¿ثر تاثر قائم کیا جا سکے۔ عیدالاضحی کے موقع پر قیادت کے بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان اب روایتی پالیسیوں سے آگے نکل کر فعال سفارت کاری، عسکری تیاری اور سیاسی پختگی کی راہ پر گامزن ہے۔ مسئلہ کشمیر، پانی کا تنازع اور بھارت کی جارحیت جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو تمام اداروں اور طبقوں کو ساتھ لے کر چلے۔اگر پاکستان اسی طرح مربوط موقف کے ساتھ اپنی خارجہ و دفاعی حکمت عملی کو آگے بڑھاتا رہا تو عالمی سطح پر نہ صرف اس کا مو¿قف سنا جائے گا بلکہ بھارت کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
|