آلو چاول، ایک نئی انقلابی خوراک


دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے خوراک کی قلت، غذائی عدم توازن، اور ذیابیطس و موٹاپے جیسی بیماریوں کا بڑھتا ہوا خطرہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے، ایسے میں چین کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایک انوکھا اور سائنسی تجربہ سامنے آیا ہے یعنی آلو سے بنے چاول۔ یہ صرف ایک نئی قسم کی ڈش نہیں بلکہ ایک مکمل "فوڈ پراسیسنگ انقلاب" ہے، جس کا مقصد زرعی پیداوار کو بہتر طور پر استعمال میں لا کر متبادل غذائیں تیار کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نیا متبادل خوراک روایتی چاول کا حقیقی نعم البدل بن سکتا ہے یا نہیں؟

چین کے صوبہ یونان (Yunnan) میں واقع ژاو تونگ شہر میں فوڈ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک نئی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے جسے پولیمر ایکسٹروژن اور گرانولیشن کہا جاتا ہے۔ اس طریقے کے ذریعے تازہ آلو، گندم، مکئی کا آٹا اور گلیسریل سٹیریٹ جیسے اجزاءکو پروسیس کرکے چاول جیسی شکل و ساخت کے دانے تیار کیے جاتے ہیں۔ابتدائی تجربات کے مطابق، 2.5 ٹن آلو کو پروسیس کر کے 1 ٹن آلو چاول تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ مصنوعی چاول دیکھنے میں عام چاول جیسا ہے، مگر ذائقے اور خوشبو کے لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔

غذائیت کے ماہرین کے مطابق یہ نیا چاول صحت کے حوالے سے متعدد اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ، اس میں روایتی سفید چاول کی نسبت 27 فیصد زیادہ پروٹین پایا جاتا ہے اس کے علاوہ غذائی ریشہ: آلو اور مکئی کے نشاستے کی بدولت اس میں فائبر کی مقدار زیادہ ہے، جو ہاضمے کے لیے مفید ہے۔کم گلائیسیمک انڈیکس کی وجہ سے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر انتخاب ہے کیونکہ یہ خون میں شوگر کی سطح کو تیزی سے نہیں بڑھاتا۔کم کیلوریز کی وجہ سے اسے وزن کم کرنے والے افراد کے لیے بھی فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے۔

آلو چاول کو پکانے کا طریقہ تقریباً وہی ہے جو روایتی چاول کا ہے،اسے دھونا یا بھگونا ضروری نہیں۔یہ کم وقت اور پانی میں تیار ہو جاتا ہے۔شیلف لائف زیادہ ہے، یعنی طویل عرصے تک خراب نہیں ہوتا۔چین میں یہ چاول پیک شدہ شکل میں مارکیٹ میں دستیاب ہیں، اور خاص طور پر صحت کے متعلق محتاط صارفین کو مدِنظر رکھ کر فروخت کیے جا رہے ہیں۔

اگرچہ یہ خیال بہت جدید اور سائنسی ہے، لیکن اس میں چند چیلنجز بھی شامل ہیں،ذائقے کی کمی: اس چاول میں روایتی چاول جیسی خوشبو یا ذائقہ نہیں، جو کئی صارفین کو ناگوار لگ سکتا ہے اور فی الحال یہ عام چاول سے زیادہ مہنگا بھی ہے، جو کہ کم آمدنی والے طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت ہو سکتا ہے اس کے علاوہ پروسیسنگ کا عمل بھی پیچیدہ ہے چونکہ یہ ایک "ہائیلی پروسیسڈ فوڈ" ہے، لہٰذا کچھ ماہرین صحت اس کی طویل مدتی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔

چین چونکہ دنیا میں آلو کی سب سے بڑی پیداوار کرتا ہے، اس لیے یہ منصوبہ نہ صرف خوراک کے بحران سے نمٹنے کی کوشش ہے بلکہ فصلوں کے ضیاع کو روکنے کا ایک عملی حل بھی ہے۔یہ نیا "آلو چاول" ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ خوراک صرف ذائقہ یا روایت نہیں بلکہ ایک سائنسی اور ماحول دوست عمل بھی ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک ماڈل بنے گا؟ کیا پاکستان جیسے زرعی ملک میں بھی اس تجربے کو اپنایا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے وقت میں سامنے آئیں گے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ خوراک کی دنیا میں انقلاب لانے کے لیے صرف زراعت نہیں بلکہ سائنسی سوچ، تحقیق، اور صارف کی ضروریات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ آلو سے بنے چاول ایک نئی شروعات ہے اور یہ ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ہمیں خوراک کی دنیا میں ایک نئی سمت دکھائے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 80 Articles with 73669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.