پاکستان میں جنگلی اور قید جانوروں کی اذیت

دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آج کل پاکستان میں شدید گرمی سے مختلف مقامات پرانسانوں کی پاس موجود جانور مشکلات کے شکارہیں شدید گرمی میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت مسلسل خراب ہورہی ہے، اس مشکل پر قابو پانے کیلئے حکومتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے!


پاکستان میں جنگلی اور قید جانور موسمی شدت، ناقص پناہ گاہوں اور سرکاری اداروں کی عدم توجہی کے باعث ہر گزرتے دن تکلیف دہ حالات کا شکار ہو رہے ہیں۔ چڑیا گھروں سے لے کر سرکس، تفریحی پارکس اور افزائشی مراکز تک، یہ جانور ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو ان کی فطرت، ضرورت اور وقار کے یکسر خلاف ہے۔

حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی نے جہاں انسانوں کی زندگی کو متاثر کیا، وہیں جانور بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی ہو یا دسمبر و جنوری کی شدید سردی میں ان جانوروں کے لیے کوئی مؤثر انتظام نہیں کیا جاتا۔ چڑیا گھروں میں بنائے گئے پنجروں اور کمروں میں نہ تو مناسب وینٹیلیشن ہوتا ہے، نہ ہی درجہ حرارت کو متوازن رکھنے والا کوئی نظام موجود ہوتا ہے۔

اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں موجود چڑیا گھر جانوروں کی تحفظ کے بجائے ان کی اذیت کے اڈے بن چکے ہیں۔ اسلام آباد چڑیا گھر کا معاملہ، جہاں ہاتھی "کاون" کو غیرانسانی حالات میں رکھنے پر عالمی سطح پر پاکستان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، اس صورتحال کی بڑی مثال ہے۔ کاون کی رہائی کے بعد دیگر جانوروں کے لیے بھی بہتری کی امید بندھی مگر تاحال خاطر خواہ بہتری نہیں ہو سکی۔

ملک کے مختلف شہروں میں آج بھی سرکس اور نجی تفریحی پارکس میں جانوروں کو غیر فطری حرکات سکھا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ان حرکات کی تربیت عام طور پر جانوروں کو بھوکا رکھ کر، مار اور سزا کے ذریعے دی جاتی ہے۔ شیر، ریچھ اور بندر جیسے جانور جو جنگل میں آزاد گھومتے ہیں، یہاں زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔

بعض چڑیا گھروں اور نیشنل پارکس میں افزائشی مراکز کے قیام کا دعویٰ کیا جاتا ہے، مگر عملی طور پر یہ مراکز جانوروں کی افزائش کے بجائے انہیں محدود کر کے بیماری اور تنہائی کا شکار بناتے ہیں۔ کئی جانور ذہنی دباؤ، بوریت، اور عدم تحریک کے باعث جارح مزاج یا مکمل غیر فعال ہو جاتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق چند قوانین موجود ہیں جیسے پاکستان پریوینشن آف کریولٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890، لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ صوبائی سطح پر وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹس اور چڑیا گھر انتظامیہ کی اکثر کارکردگی صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ فنڈز کا غلط استعمال، تربیت یافتہ عملے کی کمی، اور بے حسی اس بحران کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔

ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون سازی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور جدید تقاضوں کے مطابق جانوروں کے حقوق سے متعلق قوانین بنائے جائیں اور تمام چڑیا گھروں اور تفریحی مراکز کا سالانہ معائنہ لازمی قرار دیا جائے۔ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے تربیت یافتہ عملہ بھرتی کیا جائے۔ سرکس اور عوامی مظاہروں میں جانوروں کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے اور جانوروں کے تحفظ کے لیے فعال این جی اوز کے ساتھ حکومتی تعاون کو بڑھایا جائے۔

اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ جانور ہماری دنیا کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور حفاظت نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ ایک مہذب معاشرے کی پہچان بھی۔ پاکستان کو اگر اپنی بین الاقوامی ساکھ بہتر بنانی ہے تو اسے اپنے چڑیا گھروں، سرکسوں اور افزائشی مراکز میں موجود بے زبان مخلوق کے حالات پر فوری توجہ دینا ہوگی کیونکہ جانوروں کا درد خاموش ضرور ہوتا ہے، مگر اس کی گونج بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 80 Articles with 73637 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.