امن کے لیے اصل خطرہ کون؟ اسرائیل یا ایران


دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور ان کا پھیلاؤ ہمیشہ سے عالمی امن کے لیے ایک اہم تشویش کا باعث رہا ہے۔ اس حوالے سے اکثر ایران کو عالمی طاقتوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل کی ایٹمی پالیسی کو خاموشی اور مصلحت کے پردے میں چھپایا جاتا ہے۔ مگر اگر ہم خالصتاً حقائق اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ امن کے لیے اصل خطرہ اسرائیل ہے، نہ کہ ایران۔
ایران نے 1968 میں عالمی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے
(NPT) پر دستخط کیے اور اسے
1970
میں توثیق بھی کر دی۔ یہ معاہدہ دنیا کے تمام غیر ایٹمی ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہ بنائیں، نہ حاصل کریں، اور پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنائیں۔ ایران نے نہ صرف یہ معاہدہ تسلیم کیا بلکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی
(IAEA)
کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی باقاعدہ اجازت بھی دی۔
ایرانی جوہری پروگرام پر کئی دہائیوں سے عالمی انسپکٹرز کی کڑی نگرانی رہی ہے۔ 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA)
کے تحت ایران نے اپنے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے، سینٹری فیوجز کی تعداد کم کرنے، اور خفیہ تنصیبات کو بند کرنے جیسے اہم اقدامات کیے۔ اگرچہ امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی، ایران نے کئی ماہ تک اس کی پاسداری جاری رکھی۔
اس کے برعکس اسرائیل نے نہ
NPT
پر دستخط کیے اور نہ ہی کبھی
IAEA
کو اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے دیا۔ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے پاس 80 سے 200 کے درمیان ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں، جو کہ اس نے خفیہ طور پر ڈیولپ کیے۔ اسرائیل کی ایٹمی پالیسی ہمیشہ مبہم رہی ہے — نہ اس نے ان کی موجودگی کا اعتراف کیا، نہ انکار۔
اسرائیل کا نیگیف ریسرچ سینٹر
(Dimona)
کئی دہائیوں سے عالمی معاہدوں اور معائنہ جات سے باہر ہے، جو خود اس کے عدم شفاف رویے کا ثبوت ہے۔ سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی حکام، بشمول وزراء، کئی بار کھلے عام ایسی دھمکیاں دے چکے ہیں جو ایٹمی دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اسرائیلی وزیر نے واضح طور پر کہا کہ "غزہ پر ایٹم بم گرا دینا چاہئے"، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایران، جو عالمی قوانین کا پابند ہے اور شفاف رویہ اپنائے ہوئے ہے، اُسے مسلسل دھمکایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل، جو کسی بھی قانونی دائرے میں نہیں آتا، اُسے مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ کیا عالمی برادری کا یہ رویہ امن کی خدمت ہے یا طاقت کے اصول پر مبنی کھلی منافقت؟
دنیا کو سوچنا ہوگا کہ جس ملک نے ایٹمی معاہدوں کی پاسداری کی، انسپکٹرز کو رسائی دی، اور کبھی ایٹمی حملے کی دھمکی نہیں دی، اُس کے خلاف اقدامات کا جواز کیا ہے؟ اور جو ملک خاموشی سے جوہری ہتھیار رکھتا ہے، معائنوں سے انکاری ہے، اور شہری علاقوں پر ایٹم بم کے استعمال کی بات کرتا ہے، اُسے مہذب دنیا میں کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے؟
تاریخی حقائق، قانونی دستاویزات، اور حالیہ بیانات واضح کرتے ہیں کہ:
ایران نے
NPT
پر دستخط کیے، اسرائیل نے نہیں۔
ایران نے
IAEA
کو معائنہ کی اجازت دی، اسرائیل نے انکار کیا۔
ایران نے کبھی ایٹمی حملے کی دھمکی نہیں دی، اسرائیل دے چکا ہے۔
پس، اگر امن کو لاحق حقیقی خطرے کی نشان دہی کرنی ہے تو انگلی ایران کی جانب نہیں، بلکہ اسرائیل کی جانب اٹھنی چاہیے۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 186 Articles with 191989 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.