آزمائش یا سزا ( پہلا حصہ)


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
سب سے پہلے تو ہمیں لفظ " عذاب" اور لفظ " سزا" کو سمجھنا ہوگا کہ ان الفاظوں کے معنی کیا ہیں لفظ آزمائش کا مکمل مفہوم امتحان کے ہے اور قرآن مجید مید اس کے لیئے آزمائش اور امتحان دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں آزمائش دراصل صرف مصیبتوں یا پریشانیوں میں نہیں ہوتی بلکہ یہ امتحان کی شکل میں زندگی کے ہر شعبہ میں ہم پر آسکتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کو کمرئہ امتحان کہا گیا اور زندگی کو امتحان کہا گیا کہ ہم اس زندگی میں جو عمل کریں گے ہمیں بروز محشر اس کا حساب دینا ہوگا لہذہ اگر کوئی بیمار ہو صحتیاب ہو زندہ ہو اسے خوشی ملے اسے رزق ملے اسے کوئی نعمت مئیسر ہو دولت کی ریل پیل ہو تو یہ سب امتحان ہی ہے ان تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ یہ پرکھتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے کیا وہ اصحاب یمین میں سے ہیں یعنی بروز محشر دائیں ہاتھ سے نامہ اعمال پانے والے لوگ یا اصحاب شمال میں سے یعنی بائیں ہاتھ سے نامہ اعمال پانے والے لوگ اور یہ سب کچھ ان معاملات میں سے چن کر کسی ہر بھی آزمائش میں ڈال کر وہ رب تعالیٰ جانچ لیتا ہے لہذہ آزمائش مصیبت پر بھی ہوسکتی ہے اور خوشحالی میں بھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب آئیے ہم لفظ سزا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لفظ سزا بھی قرآن مجید میں لفظ " عذاب " کے طور پر استعمال ہوا ہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیئے رسول بھیجے اور وہ رسول یا نبی اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی زمہ داری لیکر دنیا میں تشریف لائے لیکن جب جب وہ لوگ منکر ہوئے اور انہوں نے انبیاء کرام اور اللہ کا پیغام پہنچانے والوں کے ساتھ کچھ بھی غلط کیا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا یہ عذاب ہی وہ سزا ہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور اس کے احکامات پر عمل نہ کرنے والے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں آزمائش اور سزا یعنی عذاب کا قرآن مجید کی کئی سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے تاکہ ہم لوگ سمجھ جائیں اور اپنا قبلہ درست کرلیں جیسے سورہ الانعام کی آیت 165 میں ارشاد ہوا کہ

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰکُمۡ ؕ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۫ۖ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (165).
ترجمعہ کنزالایمان::
اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بیشک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مذکورہ آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان پر کوئی آزمائش آتی ہے یا اس پر عذاب مسلط کیا جاتا ہے تو وہ اس کے اپنے اعمال کی بدولت ہوتا ہے جہاں تک آزمائش کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ یہ آزمائش دنیا میں ہی اپنے بندوں کو مبتلا کردیتا ہے جبکہ عذاب دو طرح کے ہوتے ہیں جو بڑے عذابات ہیں ان کا تعلق روز محشر سے ہے یعنی انسانوں پر ہونے والے بڑے عذاب قیامت میں اللہ تعالیٰ دکھائے گا لیکن وہ رب انسان سے اپنی ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا رب ہے اس لیئے وہ دنیا میں چھوٹے چھوٹے جھٹکے عذابات کی صورت میں دیتا ہے تاکہ اس کا بندہ سمجھ جائے توبہ کرلے تاکہ اس تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے گناہوں سے پاک ہوجائیں اور ان بڑے بڑے عذابات سے بچ جائیں جیسے قرآن مجید کی سورہ السجدہ کی آیت 21 میں ارشاد فرمایا کہ

وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(21)
ترجمعہ کنزالایمان:
اور ضرور ہم انہیں چکھائیں گے کچھ نزدیک کا عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے جسے دیکھنے والا امید کرے کہ ابھی باز آئیں گے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں یہ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں آزمائش اور سزا یعنی عذاب میں فرق کیسے محسوس ہو ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ ہم پر آنے والی آزمائش ہے یا عذاب اس سوال کے جواب میں فقہاء نے کئی نشانیاں بتائی ہیں لیکن اگر صرف ایک جملہ میں اس بات کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ " آزمائش میں سجدے طویل ہوجاتے ہیں جبکہ سزا میں گناہ طویل ہوجاتے " ۔ اتنے خوبصورت اور مختصر جملے میں بڑی گہرائی اور ہر اہل ایمان مسلمان کے سمجھنے کے لیئے بہت کچھ پوشیدہ ہے بس بات غور کرنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح جب ہم آزمائش اور سزا یا عذاب کو حدیث کی نظر سے دیکھیں تو امام ترمذی کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جوحضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے(اس کے گناہوں کی) جلد ہی دنیا میں سزا دے دیتا ہے اور اگر کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو گناہ کے سبب اس کا بدلہ روک رکھتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پورا بدلہ دے گا۔ اسی سند سے حضور نبی اکرم ﷺ سے مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزماتا ہے۔ پس جو اس پر راضی ہو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضگی ہے۔‘‘۔ ( ترمذی 2396)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث کا خلاصہ بھی یہ ہی ہے کہ دنیا میں جب رب تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا اپنی منشاء کے مطابق اسی دنیا میں دے دیتا ہے جبکہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کرے اور اللہ تعالی اس کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کی سزا کا تعین وہ بروز محشر کرے گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے جو ان کے لیئے باعث نعمت اور برکت ہوتی ہے اور اس آزمائش کے ذریعے ان کے درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں اور اجروثواب دیا جاتا ہے لیکن جنہوں نے صبر کیا اور آزمائش پر واویلا نہ کیا ان کے لیئے راحت ہی راحت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے مقرب ، پیارے اور محبوب بندوں کو ہی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے اگر ہم انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کریں تو تاریخ گواہ ہے کہ کم و بیش تمام انبیاء کرام کو آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی میں آنے والی آزمائش کہ جب ایک بیماری کے سبب قوم نے آپ علیہ السلام کو ملک بدر کردیا اور آپ علیہ السلام کے پاس کچھ بھی نہیں بچا لیکن اس مشکل وقت میں بھی آپ علیہ السلام نے صبر اور شکر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اللہ تعالی کی رضا سمجھ کر اس مشکل گھڑی سے بخوبی اپنے آپ کو گزارا یہ تھی آزمائش حضرت یونس علیہ السلام کہ چھوٹی سی لرزش کی وجہ سے آپ علیہ السلام دریا میں گئے اور مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گئے لیکن اللہ کی رضا کے لیئے اللہ تعالیٰ کی مصلحت سمجھ کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور کئی دنوں تک مچھلی کے پیٹ میں ژندہ و سلامت رہنے کے بعد دوبارہ دنیا میں آگئے یہ تھی آزمائش۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت یوسف علیہ السلام کہ جن کے سگے بھائیوں نے آپ علیہ السلام کو کنوے میں ڈال دیا اور پھر ایک تجارتی قافلہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ علیہ السلام باہر آئے یوں ہی جب زلیخا نے آپ علیہ السلام کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی اور اتنے بڑے محل جس کے کئی دروازے تھے تمام بند کروا دیئے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو بچانے کے لیئے جب اللہ تعالیٰ کو پکارا تو پھر آپ علیہ السلام بھاگتے گئے اور دروازے خودبخود کھلتے گئے اور یوں اپنے آپ کو آپ علیہ السلام نے بچا لیا صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے یہ ہوتی ہے آزمائش ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فرعون نے جب اعلان کیا کہ جو بھی لڑکا پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے اور لاکھوں کروڑوں بچوں کو قتل کیا گیا اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی پیدائش ہوئی اور آپ علیہ السلام کی والدہ نے ایک بکس میں رکھ کر دریا میں بہا دیا پھر اس بکس کا فرعون کے گھر تک پہنچنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے گھر میں پرورش پانا آپ علیہ السلام کو نبوت کا ملنا فرعون سے ٹکرانا اور کئی مقامات اور مواقعوں پر فرعون کو للکارنا اور بالآخر فرعون کا دریا میں ڈوب جانا یہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کڑی آزمائش کا وقت تھا لیکن صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا یہ ہے آزمائش ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے کا جب نمرود نے ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر آپ علیہ السلام خاموش ہوگئے آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک بہت ہی برگزیدہ نبی تھے آپ علیہ السلام کو اس مصیبت سے نکالنے کے لیئے کئی طرح کی کوشش کی گئی فرشتوں کی لائین لگ گئی کبھی آندھی چلانے والا فرشتہ آتا تو کبھی بارش برسانے والا فرشتہ کھڑا ہوتا تو کبھی طوفان برپا کرنے والا فرشتہ اجازت طلب کرتا یہاں تک کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی تشریف لائے لیکن آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرے رب کی منشاء میرا آگ میں جانا ہے تو یہ ہی صحیح یعنی ایسے موقع پر بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا یہ ہے آزمائش ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت نوح علیہ السلام جنہوں نے ساڑے نو سو سال اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن بالآخر مجبور ہوکر آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کی کہ یہ قوم میری بات نہیں مانتی اب تو چاہے تو ان پر عذاب نازل کردے پھر جب رب تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے ماننے والوں کو اپنے ساتھ کشتی میں سوار کرو اور یہاں سے نکل جائو تو جو منکر ہیں وہ رہ جائیں گے اور میں ان پر عذاب نازل کردوں گا تو جب سارے لوگ کشتی میں سوار ہوگئے تو حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا لخت جگر جو منکر اسلام تھا وہ آنے کے لیئے راضی نہ ہوا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ دیر نہ کرو نکل جائو تو آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میرا لخت جگر رہ گیا ہے میں اسے چھوڑ کر کیسے جائوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح وہ اب تیرا بیٹا نہیں بلکہ میرے نافرمانوں میں شامل ہوگیا ہے تو صبر کر اور نکل جا اس سے پہلے کہ میرا عذاب شروع ہو جائے یہ وقت حضرت نوح علیہ السلام کی آزمائش کا وقت تھا اور آپ علیہ السلام نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور روانہ ہوگئے یہ ہوتی ہے آزمائش ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں تک کہ میرے اور آپ کے آقا و مولا اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کی زندگی بھی آزمائشوں سے بھری ہوئی گزری جگہ جگہ کفار آپ ﷺ پر مظالم کرتے رہے لیکن آپﷺ نے صبر کیا آپﷺ کو کئی مرتبہ کفار نے ایذا پہنچانے کی کوشش کی آپﷺ پر گندگی بھی اچھالی گئی آپﷺ کے دانت مبارک بھی شہید کیئے گئے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جب کفار آپﷺ کی جان کے دشمن ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ہجرت کا حکم دیا اور پھر آپﷺ اپنے رفیق اپنے دوست اپنے یار مزار اور غار یار ام المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ سفر پر نکلے تو اس سفر میں بھی آزمائشوں سے گزرنا پڑا پھر غار ثور کے واقعہ میں جو آزمائش ہوئی وہ بھی ہر اہل ایمان مسلمان کے علم میں ہے گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ کی زندگی بھی صبر اور شکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور احکامات عمل پیرا ہو کر گزاری لہذہ اس سے بڑی آزمائش اور کیا ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان تمام آزمائشوں کا ہم بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہاں سزا یعنی عذاب کا عنصر بھی ملتا ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے جس سزا کا حقدار ٹھہرایا وہ سب کے سامنے ہے اور اسے ہی سزا کہتے ہیں اسی طرح فرعون کے مظالم اور اس کے توبہ نہ کرنے کے سبب اللہ رب العزت نے اسے دریا نیل میں ڈبوکر ہلاک کردینے کی جو سزا منتخب کی وہ بھی ایک عبرت ہے اور یہ سزا کا ایک منفرد رنگ تھا یہ اسے ہی سزا کہتے ہیں اسی طرح نمرود کو بیشمار مال و دولت سے نواز کر اس پر آزمائش ڈالی گئی لیکن وہ اس آزمائش میں اور سرکش ہوگیا اور اپنے مال و دولت کے نشے میں خدائی دعویٰ کر بیٹھا لیکن جب اللہ تعالٰی نے اپنی دی ہوئی ڈھیلی رسی کو کھینچنا شروع کیا تو اس کا انجام ہم سب کے سامنے ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس کو کس سزا کا سامنا کرنا پڑا یہ ہوتی ہے سزا اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی بات ماننے سے ان کی قوم کے جن لوگوں نے انکار کیا انہیں کس عذاب کا سامنا کرنا پڑا اس کی بھی تاریخ میں مثال نہیں ملتی جبکہ ان لوگوں میں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی موجود تھا یہ ہوتی ہے سزا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان تمام معاملات کو پڑھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ زندگی میں آنے والی کون سی پریشانی ہم پر آزمائش کی شکل میں آتی ہے اور کون سی مصیبت ہمارے لیئے سزا بن کر ہم پر مسلط ہوتی ہے آزمائش اور ان پر صبر و شکر کرنے اور آزمائش پر صبر و شکر نہ کرکے عذاب کو دعوت دینے کے واقعات ہمیں تاریخ اسلام میں بیشمار نظر آتے ہیں اور ہمارے اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں میں بھی ایسے واقعات ہمیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ ہم ایسے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آکر اپنے کیئے ہوئے غلط کاموں کے انجام تک پہنچ کر سزا کے مستحق بن جاتے ہیں اور انہیں دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان پر آزمائش نہیں بلکہ سزا مسلط کی گئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں یہ بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو بیشمار مال و دولت اور اعلی منصب عطا کرکے بھی آزماتا ہے تو کچھ نہ دے کر غربت میں بھی آزماتا ہے جبکہ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی نہ کرنے پر رب العزت عذاب بھی مسلط فرما دیتا ہے اس لیئے کہا گیا کہ اپنے سے کم تر کو دیکھ کر شکر کریں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے اس پر صبر اور شکر کا دامن مظبوطی کے ساتھ تھامے رکھو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی آزمائش پر پورا اترتا ہے اس کے لیئے بیشمار اجروثواب کا وعدہ ہے اور جو اللہ کی رضا پر راضی نہیں ہوتے ان پر عذاب یعنی سزا مسلط کردی جاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر کبھی آزمائش سے گزرنا پڑے تو صبر اور شکر کے ساتھ گزرجایئے گا کہ اللہ باری تعالیٰ ہمیشہ اچھے، نیک اور اپنے خاص لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہےاور جس بندے سے زیادہ پیار کرتا ہے اور اس کی بھلائی چاہتا ہے تو اس پر ہی آزمائش ڈالتا ہے اور کوشش کریں کہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اپنے کسی بھی عمل سے نافرمانی نہ ہو ورنہ اگر وہ رحیم ہے کریم ہے تو وہ جبار بھی ہے قہار بھی ہے اس کا عذاب ہمارے اوپر سزا بن کر مسلط بھی ہوسکتا ہے لہذہ اس عذاب سے اس سزا سے بچنے کی کوشش کیجیئے اور اپنا ہر کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیب کریمﷺ کی احادیث کے فرمان کے مطابق گزارنے کی عادت بنالیجیئے اللہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کا بندہ کتنا کمزور ہے اور وہ اپنے بندے پر اس کی برداشت سے زیادہ آزمائش نہیں دیتا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

میں آدم زاد ہوں مولا تو یہ جانتا تو ہے
کہ زیادہ آزمائش پر میں جنت ہار جائوں گا

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری آج کے اس موضوع کا یہ پہلہ حصہ تھا آپ نے غور کیا ہوگا کہ میں نے آج کے حصے میں آزمائش اور عذاب یعنی سزا پر کوئی واقعہ یا حکایت شامل تحریر نہیں کیا اس لیئے میری کوشش ہوگی کہ اس کے دوسرے حصے میں کوئی واقعہ یا حکایت تحریر کرکے آپ تک پہنچائوں لہذہ دوسرے حصے کی تحریر کے ساتھ پھر حضرت ہوں گے آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر آزمائش پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے عذاب سے بچا کر رکھے مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم دعائوں میں ہمیشہ یاد رکھیئے گا ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 183 Articles with 166749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.