قرآن اور اہلِ عرب

ایک کہانی سنیں۔۔۔۔
حسان ابن ثابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشہور شاعر تھے تمام مسلم قبیلوں کا اپس میں کمپٹیشن ہوتا تھا نیکیوں میں انہوں نے اپنے قبیلے کے لیے نظم لکھی

لٙنْ الجٙفٙانٙاتُ الْغُرْف یٙلْمٙعْلٰی باالضحٰی
واٙسْیٙافُنٙا یٙقْطٙرْنٙا مِن نٙجْدٙتِنْ دٙمّٙا

ہمارے پاس بڑے چمکیلے پیالے ہیں یعنی جس پیالے میں وہ صدقہ دیتے ہیں وہ خود چمکیلا ہے تو اندازہ لگائے پیالے میں اندر ہوگا کیا وہ پیالے دن کے وقت میں چمکتے رہتے ہیں یعنی ہم پورا دن صدقہ دیتے ہیں
واٙسْیٙافُنٙا یٙقْطٙرْنٙا اور ہماری تلواروں میں سے قطرے گرتے ہیں خون کے کیونکہ ہم اپنے بندے بازیاب کروانے جاتے رهتے ہیں جیسے ہمارا کوئی بندہ پکڑا گیا ہم تین چار جا کر پوری فوج سے لڑ کر اس کو واپس لے کر آتے ہیں اس کو ' نجدٙ ' کہتے ہیں عربی میں ۔ ہماری تلواروں سے خون ٹپکتا رہتا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ ایسے مشنز پر رہتے ہیں۔
پہلی لائن ان کی تھی صدقات کے بارے میں اور دوسری تھی بہادری کے بارے میں خنساٙء رضی اللہ تعالی عنہ ان کی شاعری سن رہی تھی انہوں نے حسان رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا اور کہتی ہیں اپ نے جفانات کہا پیالے اگر جفان کہتے تو زیادہ بہتر ہوتا عربی میں جمع دو طرح کی ہیں ایک جمع ہے جو دس سے کم ایک جمع ہیں جو دس سے زیادہ اب وہ کہتی ہیں جرخان کہتے تو زیادہ بہتر اس لیے زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ کیا اپ کے پاس صرف نو ہی پیالے ہیں کیا؟ اپ نے کہا یٙلْمٙعْلٰی وہ چمکتے ہیں اپ کو کہنا چاہیے تھا اُشْرِکْنٙا چمکتے نہیں ہیں ان سے خود روشنی نکلتی ہے چمکنے کا مطلب تو یہ ہے کہ کہیں باہر سے روشنی اتی ہے اور پھر چمکتے پھر اپ نے کہا کے دن میں چمکتے ہیں دن میں تو پتھر بھی چمکتے ہیں آپ کو رات میں چمکنے کی بات کرنی چاہیے تھی پھر وہ کہتی ہیں واٙسْیٙافُنٙا اس کی جمع بھی دس سے کم ہے اپ کو سُیُفُنٙا کہنا چاہیے تھا یعنی دس سے زیادہ تلواریں پھر کہا یٙقْطٙرْنٙا اس سے قطرے گرتے ہیں یعنی اپ نے تو دشمن کو صحیح سے زخمی بھی نہیں کیا اس میں سے تو قطرے گر رہے ہیں اپ کو یٙجْرِیْناٙ کہنا چاہیے تھا کہ اس سے بہتے ہیں۔
دمّٙٙا نہیں کہنا چاہیے تھا اس کے معنی تو خون کا قطرہ ہے دِمٙاٙٙ یعنی خون کا دریا اپ کو دِمٙاٙٙ کہنا چاہیے تھا اپ کی شاعری اچھی ہے لیکن ایسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے تھے عرب فطرتاٙٙ انہیں بہت شوق تھا نقص نکالنے کا وہ کسی کو نہیں چھوڑتے تھے کسی کو بھی نہیں اور یہ 600 صفحے کا قران ایک دفعہ جو کسی نے تردید کی ہو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا کہتا ہے آپ کے قران میں تین غلطیاں ہیں ہم نے کبھی یہ تین الفاظ نہیں سنے ہمارے ہاں ہے ہی نہیں قران کہتا ہے کُبّٙار ہم کُبّٙار کا لفظ استعمال نہیں کرتے کبیر کرتے ہیں یہ لفظ عربی نہیں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور بتاؤ اور کیا مسئلہ ہے کہنے لگا تمہارے قران میں عُجاب کا لفظ استعمال ہوا ہے کہتا ہے عجیب کا لفظ تو سمجھ آتا ہے یہ عُجاب کیا ہے پھر کہتا ہے تمہارے قران میں شیر کے لیے اسٙدْ کے بجائے کسورٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے ہم کسورٰی استعمال نہیں کرتے ہم غٙزٙنْفٙرْ استعمال کرتے ہیں یا اسد استعمال کرتے ہیں کسورٰی استعمال نہیں کرتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا بیٹھو میں تمہارا مسئلہ حل کرتا ہوں اس وقت وہ الگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے خادم کو اندر بلایا اور کہا کہ حسان کو اندر لے کر اؤ وہ صحابی کو لے کر ائے صحابی سے کہا کہ بیٹھو وہ بیٹھ گئے فرمایا کھڑے ہو جاؤ وہ کھڑے ہو گئے پھر کہا جاؤ وہ جانے لگے پھر فرمایا نہیں نہیں بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گئے پھر فرمایا کھڑے ہو جاؤ وہ کھڑے ہو گئے پھر فرمایا جاؤ وہ جانے لگے نہیں نہیں بیٹھ جاؤ وہ کنفیوزڈ ہو گئے۔ وہ حیران ہو کر کہتے ہیں کہ
یاکسورٰی تلعرب اٙنْتٙ کُبّٙارُناٙ ھٙذٙا شٙیْءُُ عُجاب
وہ کیا کہتے ہیں وہ اس جملے میں وہ تینوں لفظ استعمال کرتے ہیں جن کا وہ شخص تردید کر رہا تھا کہ اہل عرب و لفظ استعمال ہی نہیں کرتے
وہ کہتے ہیں کہ' اے عرب کے شیر آپ ہمارے بڑے ہیں یہ بہت عجیب چیز ہے۔' اب وہی تینوں لفظ ہیں اس جملے میں جواب وہیں کے وہیں مل گیا۔

استاد نعمان علی خان کے لیکچر سے ماخوذ

Anam Misbah
About the Author: Anam Misbah Read More Articles by Anam Misbah : 12 Articles with 5631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.