نیچر انڈیکس ریسرچ لیڈرز کی تازہ رپورٹ میں جاری 2024 کے
کیلنڈر ایئر ڈیٹا کے مطابق، عالمی معیار کی سائنسی ترقی میں چین کا حصہ
حیرت انگیز رفتار سے بڑھ رہا ہے، جس سے تحقیق کی آوٹ پٹ میں اس کی برتری
مزید وسیع ہوئی ہے۔
نیچر انڈیکس کے علاوہ، متعدد عالمی درجہ بندیوں میں بھی ایشیا کے بڑھتے
ہوئے اثر و رسوخ، خاص طور پر عالمی سائنسی تحقیق میں چین کے اہم کردار کو
اجاگر کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ایشیائی ممالک کی اہمیت بڑھی ہے، جبکہ
مغربی اداروں کی درجہ بندی میں اعلیٰ پوزیشنوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار عالمی تحقیق کے منظر نامے میں بنیادی
تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں سائنسی اور تحقیقی قیادت مغرب سے مشرق کی
طرف منتقل ہو رہی ہے۔
2023 میں، چین پہلی بار نیچر انڈیکس ریسرچ لیڈرز کی فہرست میں امریکہ کو
پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آیا تھا۔ یہ فہرست ممالک، خطوں اور اداروں کو
صحت اور نیچرل سائنسز کے 145 معروف جرائد میں شائع شدہ مقالوں میں ان کے
تعاون کی بنیاد پر درجہ دیتی ہے۔ پچھلے سال کے دوران چین کا قائدانہ کردار
مزید تیزی سے بڑھا ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق، نیچر انڈیکس ڈیٹا بیس میں چین کی امریکہ پر
برتری صرف ایک سال میں چار گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ملک کا "شیئر " جو
معیاری تحقیق میں مصنفین کے تعاون کا نیچر انڈیکس کا اہم پیمانہ ہے ،
32,122 تک پہنچ گیا، جو 2023 کے مقابلے میں 17.4 فیصد اضافہ ہے۔چین کے اب
ٹاپ 10 میں آٹھ ادارے شامل ہیں، جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد سات تھی۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز نے اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھی۔ یونیورسٹی آف
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنا تیسرے نمبر پر رہی، جبکہ زے چیانگ یونیورسٹی
دسویں سے چوتھے نمبر پر آ گئی۔ نیچر حکام کے مطابق عالمی تحقیق میں چین کے
بڑھتے ہوئے مضبوط اور مؤثر شیئر کو نہ صرف نیچر انڈیکس میں، بلکہ سائنسی
آوٹ پٹ کی دیگر اہم درجہ بندیوں اور تشخیصی نظاموں میں بھی تسلیم کیا گیا
ہے۔
ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے جاری کردہ گلوبل انوویشن انڈیکس
2024 کے مطابق، چین مسلسل دوسرے سال دنیا کی قیادت کر رہا ہے جہاں ٹاپ 100
سائنس اور ٹیکنالوجی انوویشن کلسٹرز میں سے 26 چین میں ہیں۔ اس سے گزشتہ
دہائی میں جدت طرازی کے لحاظ سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں چین کی
حیثیت مزید مستحکم ہوئی ہے۔یہ یقیناً چین کے تحقیق اور تعلیم میں منظم
سرمایہ کاری، نیز بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ثبوت ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پورے ایشیا میں ممالک نے تحقیقی عوامل میں مضبوط
ترقی دکھائی ہے۔ مثال کے طور پر، جنوبی کوریا ریسرچ لیڈرز 2025 کی درجہ
بندی میں آٹھویں سے ساتویں نمبر پر آ گیا اور حیاتیاتی علوم میں اس کے
ایڈجسٹڈ شیئر میں 11 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ ملک نے طبیعی علوم میں بھی
چھٹے سے چوتھے نمبر پر ترقی کی۔
سنگاپور نے بھی اپنی حالیہ کارکردگی سے امتیاز حاصل کیا، 18ویں سے 16ویں
نمبر پر پہنچا اور 7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ، جو چین کے بعد ٹاپ 20 ممالک
میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ زمینی اور ماحولیاتی علوم کے مقالوں میں اس
کے ایڈجسٹڈ شیئر میں 2023 سے 2024 تک 19 فیصد سے زیادہ جبکہ صحت کے علوم
میں ایڈجسٹڈ حصہ میں 23 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
تاہم، جاپان اس سلسلے میں تھوڑا الگ رہا، جہاں 9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
دیگر ایشیائی ممالک کی کامیابی سبز ٹیکنالوجی اور مواد پر توجہ کی عکاس بھی
ہو سکتی ہے، جو ڈیٹا بیس میں تحقیقی مقالوں کے بڑھتے ہوئے شیئر کی وجہ ہیں۔
عالمی اقتصادی فورم کے مطابق، ایشیا ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے عالمی مرکز
کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔ 2030 تک، ایشیا کا فِن ٹیک ریونیو شمالی امریکہ
سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔تازہ ترین گلوبل انوویشن انڈیکس کی درجہ بندی
میں، دنیا کے پانچ معروف سائنس اور ٹیکنالوجی کلسٹرز مشرقی ایشیا میں واقع
ہیں، جن میں سے تین چین میں ہیں۔
نیچر انڈیکس کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ چین کے محققین دیگر
ایشیائی ممالک کے سائنسدانوں کے ساتھ اپنا تعاون بڑھا رہے ہیں۔ یہ بڑھتا
ہوا تعاون دیگر ایشیائی ممالک کی تحقیق کی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں
مددگار ثابت ہو رہا ہے، جیسا کہ نیچر انڈیکس کے تازہ کیلنڈر ایئر ڈیٹا سے
بھی اجاگر ہوتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلسل سرمایہ کاری معیاری
تحقیقی ثمرات میں تیز رفتار اور پائیدار ترقی کا باعث بن رہی ہے، جو طبیعی
علوم اور کیمسٹری جیسے شعبوں میں پہلے غالب مغربی ممالک بشمول امریکہ کو
کہیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
|