پانی پر جنگ کا خطرہ، عالمی ضمیر کی آزمائش

ایوان اقتدارسے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی ہیگ میں نیٹو سربراہان اجلاس سے خطاب کے دوران جہاں ایران اسرائیل جنگ بندی پر تفصیلی گفتگو کی گئی، وہیں پاک بھارت جنگ بندی کا بھی ذکر کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ بندی کیلئے فوری رضامندی ظاہر کی، جس کے باعث 10 مئی کو امریکی مداخلت کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ بندی عمل میں آئی۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی نئی امیدوں کا آغاز ہو سکتا تھا۔ امریکی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کو حل کرانے میں ثالثی کی پیشکش بھی کی تاکہ خطے میں ایک بار پھر جنگ کے بادل چھٹ جائیں، مگر افسوس کہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور جارحانہ رویے نے اس نیک نیتی پر مبنی کوشش کو ثمر آور نہ ہونے دیا۔
جنوبی ایشیائی خطہ پہلے ہی سیاسی تنازعات، عسکری کشیدگی اور عدم اعتماد کی فضا میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسے میں پانی جیسے حساس ترین معاملے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ بھارت نے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی یکطرفہ معطلی کا اعلان کیا بلکہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر آبی جارحیت میں بھی شدت پیدا کر دی ہے۔ اس صورتحال نے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے اور مستقبل قریب میں ایک بڑی انسانی و ماحولیاتی تباہی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
بھارت کا آبی رویہ عالمی قوانین، بین الاقوامی معاہدوں اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ جو 1960ء میں عالمی بینک کی معاونت سے طے پایا، اس نے دونوں ممالک کو پانی کی منصفانہ تقسیم کا فریم ورک فراہم کیا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس اور ستلج) کا کنٹرول دیا گیا، جب کہ پاکستان کو مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر حق تفویض کیا گیا۔
تاہم، حالیہ مہینوں میں بھارت کی جانب سے ان دریاؤں پر یکطرفہ منصوبہ بندی، ڈیموں کی تعمیر اور نہری نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نے اس معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ متنازع رنبیر نہر، رتلے، پکل ڈل، کیرو، اور کاکوار منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ بھارتی وزارت توانائی کے مطابق صرف جموں و کشمیر میں پن بجلی کی استعداد کو 3360 میگاواٹ سے بڑھا کر 12000 میگاواٹ تک لے جانے کا منصوبہ ہے، جس کے تحت تین بڑے منصوبے چناب اور اس کی ذیلی نہروں پر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی اقدامات پر بارہا شدید احتجاج ریکارڈ کروایا جا چکا ہے۔ 24 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اگر بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کی کوشش کی تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔یہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک ریاستی پالیسی کی ترجمانی ہے، جو قومی سلامتی، خودمختاری اور بقاء سے متعلق ہے۔ پانی پاکستان کے لیے صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ زراعت، معیشت اور قومی وجود کی بقاء کا معاملہ ہے۔امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش بظاہر خوش آئند ہے، لیکن اس کا پائیدار اثر اسی وقت ہو گا جب امریکہ بھارت پر بھی وہی اخلاقی اور سیاسی دباو ڈالے جو اس نے پاکستان سے جنگ بندی کے لیے کیا۔ امریکہ کی پالیسی میں اگرچہ جنوبی ایشیاء کو امن کی طرف لے جانے کی خواہش دکھائی دیتی ہے، لیکن بھارت کو اسٹریٹجک پارٹنر بنانے کی پالیسی نے اس توازن کو متاثر کیا ہے۔
اگر امریکہ واقعی خطے میں دیرپا امن کا خواہاں ہے تو اسے بھارت کی آبی جارحیت، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، اور مذاکرات سے انکار جیسے معاملات پر کھل کر بات کرنی ہو گی۔ محض جنگ بندی پر کریڈٹ لینا کافی نہیں بلکہ امن کی فضا کو مستقل اور مستحکم بنانے کے لیے سنجیدہ، غیر جانبدار اور شفاف کوششیں بھی ضروری ہیں۔
سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک ہے، مگر بدقسمتی سے عالمی بینک نے بھارت کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کے تحت اس معاملے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس سے متوقع تھا۔ حتیٰ کہ عالمی بینک کے مقرر کردہ غیر جانبدار ماہر نے بھی بھارت کے دباؤ میں آکر رتلے اور کشن گنگا ڈیم کے تنازعات میں ثالثی کی کارروائی روکنے پر آمادگی ظاہر کی۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ عالمی ضمیر کب جاگے گا؟ اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی ادارے اور انسانی حقوق کے ادارے کب اس مسئلے پر سنجیدہ نوٹس لیں گے؟ کیا یہ ادارے صرف طاقتور ممالک کے مفادات کے نگہبان رہ گئے ہیں؟ یا پھر وہ واقعی اقوام عالم کے حقوق اور امن کے علمبردار بھی ہیں؟
امریکی صدر کو پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے، لیکن اگر پائیدار امن مطلوب ہے تو دونوں ممالک کے درمیان موجود بنیادی تنازعات خصوصاً کشمیر، سیاچن اور پانی جیسے مسائل کا حل ناگزیر ہے۔ صرف عارضی جنگ بندی، سفارتی ملاقاتیں یا رسمی بیانات کسی مسئلے کا حل نہیں دے سکتے۔ خطے میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک بھارت اپنی جارحانہ سوچ ترک نہیں کرتا اور پاکستان کے جائز حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔پاکستان نے ہر سطح پر تحمل، مذاکرات، سفارت کاری اور بین الاقوامی ثالثی کو ترجیح دی ہے۔ اس کی سیاسی و عسکری قیادت نے بارہا اس کا اعادہ کیا کہ پاکستان خطے میں امن، ترقی اور استحکام چاہتا ہے، لیکن اس خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔اقوام متحدہ، عالمی بینک اور دیگر عالمی ادارے اگر واقعی اپنے کردار سے مخلص ہیں تو انہیں بھارت پر دباو ڈالنا ہو گا کہ وہ سندھ طاس معاہدے، انسانی حقوق اور علاقائی استحکام کو پامال کرنے والے اقدامات سے باز رہے۔ یہی وقت ہے جب عالمی برادری کو ثابت کرنا ہے کہ وہ طاقت کے بجائے اصولوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 38 Articles with 25163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.