ہمارا معاشرہ اور کلچر اس بات کا
متقاضی ہے کہ قوم کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جائے ۔ تھوڑا سا تجزیہ اس آرٹیکل
میں پیش خدمت ہے جس سے عالمی مہروں کا تعین شاید کیا جا سکے ۔
ہمارے ملک میں اندیکھی قوت نے شروع ہی سے اپنے مضبوط پنجوں میں جکڑ لیا
تھااور اب تک اس پر مکمل دسترس بھی رکھتی ہے ۔ اس گرفت کی ڈور کا ایک
سراعالمی طاقتوں سے کسی نہ کسی طور جڑا نظر آتا ہے ۔ اس ان دیکھی قوت کو
کسی فرد،ملک، قوم، کلچر اوراسکی سالمیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ انکی
غرض حالات کو اپنے لئے موافق کرنا ہوتا ہے ۔ اس کام کو ممکن بنانے کے لئے
ان ممالک میں آلہ کار بنانا جو کسی بھی قیمت پر دستیاب ہو سکیں جنہیں ایجنٹ
بھی کہا جاتا ہے۔ ان ایجنٹوں کو انعام کے طور پر اقتدار اعلٰی پر دسترس
دلانا اور ان کا منہہ دولت سے بھرنا جو انکے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا
۔ ایسے افراد مغربی میڈیا اور حکومتوں میں بھی اعلٰی خطابات اور انعامات سے
نوازے جاتے ہیں ۔ جن سے انکی ذہانت اور کردار سازی کو عرو ج حاصل ہوتا ہے ۔
یہ سب اس اطاعت کا صلہ ہوتا ہے جس کے فوائد اس قوم سے خون چوس کر حاصل کیے
جاتے ہیں ، لیکن اس سے روگردانی پر سزا بھی دی جاتی ہے ۔ جن کا اہتمام اسی
ملک میں متعین دوسرے ایجنٹ یقینی بناتے ہیں ، دیکھیں عرب ، خلیجی ممالک ،
افغانستان اور پاکستان جہاں ہر کچھ عرصہ بعد اقتدار پر قبضہ اور خونی
انقلابات،جس میں ایجنٹوں نے کس طرح عالمی طاقتوں کی راہ میں مزاہم حکمرانوں
کا خاتمہ کر کے ترقی کے نام پر ان عالمی قوتوں کے لئے راستے ہموار کئے اور
ان ممالک میں تمام مخالفتوں کا خاتمہ کر کے ان کی تعبیداری کے لئے قوم کو
تیار کیا ، پاکستان میں بھی حالات ایسی ہی تصویر پورٹر کرتے ہیں۔
صلیبی جنگوں کے تسلسل اور مشرقی یورپ میں چھے سو سالہ اقتدار کا خاتمہ کے
دوران جدوجہد میں ان مغربی طاقتوں نے یہ بات بہت اچھی طرح زہن میں بٹھا لی
کہ مسلم قوتوں کو جنگوں سے تاراج نہیں کیا جا سکتا جس کے باعث وہ زبردست
جانی مالی اور معاشی بحران کا شکار ہو ئے تھے اور اپنی ریاستوں کی حفاظت ہی
سے محروم ہو گئے تھے سازشوں ہی سے انکو زیر کیا جا سکتا ہے ۔جس میں انہیں
حیر ت انگیز کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں اس کے بعدسے پالے ہوئے
ایجنٹوں ہی کو استعمال میں لا کر اس ملک کے خلاف مذموم مقاصد حاصل کر لئے
جاتے ہیں ۔ آج پوری مسلم دنیا اس نرغے میں بری طری جکڑ دی گئی ہے اور اسی
ملک کے لوگ اپنی کی قوم اور ریاست سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اس عالمی
نرغے کا شکار ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائزلوگ بھی ہیں ۔
ہمارے ملک میں دیکھیں تو غلام محمد جو امریکی کیمپ کاپہلا جاندار مہرہ تھا
لیاقت علی خان کے خلاف استعمال ہوا جسے دوسرے مہرے اسکندر مرزا نے اقتدار
سے علیحدہ کیا کہتے ہیں کہ اس معذور شخص جو لقواہ کے عارضے میں مبتلا ہو
کربھی اس ملک کا سربراہ تھا تھپڑ مارے گئے اور زبردستی اقتدار سے علیحدگی
کے کاغذات پر دستخط کرالئے ۔ اسکندر مرزا اپنے اقتدار کی طوالت کی منصوبہ
بندی امریکیوں سے قربت بڑھا کر کی اور اس تعلق کو مستحکم کرنے کے لئے اپنے
بیٹے کی شادی امریکی سفیر کی بیٹی سے کروا دی تاکہ اسکا اقتدار کو کوئی
خطرہ نہ ہو ۔ لیکن امریکی کیمپ کے ا یک اور مہرے ایوب خان نے اسکندر مرزا
کو بندوق کے زور پر چوبیس گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا وقت دے کر اقتدار سے
دستبردار کر دیا۔ اور اقتدار پر قابض ہو گیا عالمی طاقتوں نے اس مہرے سے
بہت کام لیا ، اور ملک میں جنگ عزیم دوم کا متروکہ اسلحہ عنایت کیا گیا،
لیکن جب عالمی طاقتوں کے مشرقی پاکستان توڑنے کی سازش میں حصے دار بننے سے
انکار ی ہوا تو اس سے جان چھڑانے کی کوششیں شروع ہوئیں اوراور ایوب خان کو
پینسٹھ کی جنگ بھگتنا پڑی اورزلت آمیز تاشقند معاہدے کو قبول کرنا پڑا اور
بھٹو اس موقع پرخم تھوک کر میدان میں آیا اس نے ایوب خان کے اقتدار کے لئے
مشکلات میں اضافہ کیا جس کی بنیاد پر اسکے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریکیں
اٹھائی گئیں ، اسی تناظر میں بھٹو اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر اقتدار
یحیی خان کو مارشل لاء نافذ کر نے پر مجبور کر دئیے گئے۔ ایوب خان کو تحفظ
بھی انہیں قوتوں نے فراہم کیا کسی نے ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ تک نہیں
کیا۔ ان مہروں نے عالمی قوتوں کے پاکستان کو توڑنے کی سازش کو عملی جامہ
پہنانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ تاریخ گواہ ہے یہ کردار جودانستہ یانا
دانستہ پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک تھے ، شیخ مجیب ، بھٹو، یحیی خان
اور برٹش آرمی کے دور کا ٹائیگر جنرل نیازی ۔ اقتدار جب یحیح خان کے ہاتھ
آیا توپاکستان توڑنے کے ادھورے منصوبے کی تکمیل کر دی اور مشرقی پاکستان ہم
سے جدا کر دیا گیا ۔ انہوں نے الیکشن کرانے کا پلان بنا کر مشرقی پاکستان
میں زبردست دھاندلی کے رکارڈ قائم کئے گئے جس کا مقصد شیخ مجیب کوبلا شرکت
غیرے فاتح قرار دلوانا تھا۔ اور اس کے بعد اقتدار کی منتقلی بھی نہیں کرنی
تھی ظاہر ہے کہ مخالفت نے جنم لیا اور اس مخالفت کو فرو کرنے فوجی آپریشن
کر کے بے گناہ لوگوں کا خون بہایا بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی
فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کردیں بھٹو کو وزیر خارجہ کا قلمدان سونپا
گیا ، اندرا گاندھی بھی اس سازش میں لیڈر کی حیثیت سے شامل تھی اور
پاکستانی اہلکار انڈیا کی تمام شرائط مانتے چلے جا رہے تھے، جس نے سلامتی
کونسل کے اجلاس میں پولینڈ کی انڈو پاک جنگ بندی کی قرار دادکو پھاڑ کر
ملکی سالمیت پر آخری ضرب لگا دی اور پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال کر اس
عالمی منصوبہ کی آبیاری کر دی اس موقع پر جنرل نیازی کہتا ہوا پایا گیا کہ
میں کیسا لڑا ۔ اس شکست نے بھٹو کے لئے اقتدار کا تحفہ پیش کر دیا گیا بھٹو
نے جوابی طور پر کسی غدار کو سزا نہیں ہونے دی جبکہ ملک توڑنے کے مجرم قوم
کے سامنے دندناتے پھرتے رہے ۔
بھٹو بہت شدت سے اس شکست کا غم قوم سے دور کرنیکی کوششوں میں مصروف ہوا اس
نے معاشرے میں آزادی کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا گلی گلی شراب خانے
کھول کر نوجوانوں کو کرپشن کی طرف راغب کر دیا جس سے قوم نے ہوکس بے جیسے
واقعات دیکھے جس میں قوم کی بیٹیوں کو بے عزت کیا گیا ۔ غیرت مند قوم کے
لوگوں نے اکاشوانی سے انڈیا کا وہ تبصرہ بھی سنا کہ ڈھونڈ لی قوم نے فلاح
کی راہ نوجوانوں نے اپنی منزل کا تعین کر لیا ۔ یوں قوم مشرقی پاکستان کی
علیحدگی کے ملزمان کے خلاف اقدامات کرنے سے محروم کر دی گئی ۔ قوم عالمی
طاقتوں کی شدید مخالفت تھی اور بھٹو اس مخالفت کو مزید گہرا کرکے اپنے لئے
اسپیس پیدا کر رہے تھے جس کا مقصد اقتدار کی طوالت تھا انہوں نے عالمی
طاقتوں کے ایجنڈے کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا ، جس میں ایک بات تو مسلم
طاقت کا اتحاد اور تیل کا ہتھیار اور مسلم قوت کو ایٹمی طور پر مسلح کرنا
جس پر ابتدائی طور پر کسی حد تک انہیں کامیابی حاصل ہوئی لیکن جب حالات
عالمی طاقتوں کے اختیار ہاتھ سے نکلتے نظر آئے تو ایک مہرے ضیا ء الحق کے
زریعے اقتدار سے محروم ہو کر پھانسی گھاٹ پر لٹکا دئے گئے ان کی صلاحیتوں
اور پاپولیرٹی کا غبارہ پھٹ گیا جو عالمی طور پر ان کے حصے میں آئی تھیں ۔
ملک میں انکی پھانسی پر لوگوں نے خوشی کااظہار کیا جو دراصل ہماری خوشی نہ
تھی بلکہ عالمی طاقتوں کی کامیابی کی خوشی تھی چونکہ ہمارے معاشرے کا یہ
کلچر نہیں کہ کسی کی موت پر خوشیاں منائی جائیں بلکہ قدرت سے پناہ طلب کرتا
ہے۔ |