کریونکس: موت کو چیلنج کرتی ایک حیران کن سائنسی کوشش

حضرت انسان ہمیشہ زندہ رہنے اور موت سے بچنے کی جستجو میں رہا موجودہ دور میں سائینس کی ترقی نے اسے ایک موہوم آس دلا دی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب ثروت لوگ زندگی کی دوسری قسط پانے کے لیے کروڑوں خرچ کر رہے ہیں!

موت ایک اٹل حقیقت ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی، یا کم از کم ہم یہی سمجھتے آئے ہیں۔ لیکن کیا ہو اگر ہم کہیں کہ دنیا کے کچھ انتہائی مالدار اور سائنس پر یقین رکھنے والے لوگ اس نظریے کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ وہ مرنے کے بعد بھی دوبارہ جینے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ سب کسی فلمی کہانی کا منظر نہیں بلکہ "کریونکس" (Cryonics) نامی ایک سائنسی عمل کا حصہ ہے جو موت کو مؤخر کرنے یا شاید مکمل شکست دینے کے خواب پر قائم ہے۔
کریونکس ایک ایسا سائنسی عمل ہے جس کے تحت کسی انسان کے مرنے کے فوراً بعد اُس کے جسم (یا صرف دماغ) کو انتہائی کم درجہ حرارت پر منجمد کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اس عمل کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں جب سائنسی ترقی اتنی ہو جائے کہ موت کی وجہ بننے والی بیماریوں کا علاج ممکن ہو، تو ان منجمد جسموں کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔
فی الحال، دنیا میں 650 سے زائد افراد کے جسم اس طریقہ کار کے تحت منجمد کیے جا چکے ہیں، جن میں بعض معروف سائنسدان، سرمایہ کار، اور ریسرچرز شامل ہیں۔
کریونکس کا عمل ایک طے شدہ پروٹوکول کے تحت کیا جاتا ہے:
1. جیسے ہی کسی شخص کی قانونی موت ہوتی ہے، فوراً اس کے جسم کو ٹھنڈا کرنے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے تاکہ خلیات خراب نہ ہوں۔
2. جسم سے خون نکال کر ایک خاص مائع (کریوپروٹیکٹنٹ) داخل کیا جاتا ہے، جو برف کے کرسٹل بننے سے بچاتا ہے۔
3. پھر جسم کو -196 ڈگری سینٹی گریڈ پر مائع نائٹروجن میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔
4. یہ جسم خصوصی اسٹیل چیمبرز میں رکھا جاتا ہے، جو بجلی کے بغیر بھی طویل عرصہ جسم کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کریونکس ایک انتہائی مہنگا عمل ہے، جس کا خرچ عام انسان کی پہنچ سے باہر ہے:
صرف دماغ کو محفوظ رکھنے کا خرچ: تقریباً 70,000 ڈالر
مکمل جسم کو منجمد کرنے کا خرچ: 200,000 ڈالر یا اس سے زائد ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس عمل کو اب تک زیادہ تر وہی لوگ اختیار کر رہے ہیں جو مالی طور پر انتہائی مستحکم ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دوبارہ زندہ ہونا واقعی ممکن ہے؟
یہ سب اب تک صرف ایک نظریاتی امید پر مبنی ہے۔ دنیا میں آج تک کسی بھی انسان یا جانور کو مکمل طور پر منجمد کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ البتہ، کچھ خلیات، چھوٹے کیڑے یا ایمبریو کو منجمد کر کے دوبارہ زندہ ضرور کیا گیا ہے، لیکن انسان کا جسم ایک بہت پیچیدہ نظام ہے، جس میں دماغ، اعصاب، خون کی نالیاں اور درجنوں اعضاء شامل ہیں۔اس لیے موجودہ سائنسی میدان میں کریونکس ایک تجرباتی تصور ہے جو اگرچہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا، مگر مستقبل کی سائنس سے اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔
اب یہ بھی معلوم کرتے ہیں کہ یہ عمل کہاں ہو رہا ہے ؟
دنیا میں چند کمپنیاں اس شعبے میں سرگرم ہیں، جن میں نمایاں نام یہ ہیں:
Alcor Life Extension Foundation (ایریزونا، امریکہ)
Cryonics Institute (مشیگن، امریکہ)
KrioRus (روس)
یہ ادارے نہ صرف جسموں کو منجمد کرتے ہیں بلکہ ان کے تحفظ اور ممکنہ بحالی کے لیے تحقیق بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کریونکس پر یقین رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ موت دراصل ایک "عارضی بیماری" ہے، جس کا علاج ممکن ہے ، بس وقت درکار ہے۔ یہ سوچ روایتی نظریات سے ہٹ کر ہے، اور بہت سے مذہبی، سائنسی اور اخلاقی سوالات کو جنم دیتی ہے:
کیا موت کو مؤخر کرنا خدا کے نظام میں مداخلت ہے؟
کیا یہ صرف امیروں کے لیے زندگی کی دوسری قسط خریدنے کی کوشش ہے؟
اگر مستقبل میں زندہ ہونا ممکن ہو گیا تو کیا وہ شخص اپنی شناخت، یادداشت یا شخصیت برقرار رکھ سکے گا؟
یہ سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔
کریونکس ایک ایسا شعبہ ہے جو سائنس، فلسفے، امید، اور معاشی طاقت کے درمیان کہیں کھڑا ہے۔ یہ خواب دیکھنے والوں کی سائنس ہے، ایک ایسی دنیا کا تصور جہاں موت پر قابو پا لیا جائے، یا کم از کم اسے کچھ عرصے کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔
اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ خواب کبھی حقیقت بن پاتا ہے یا نہیں، لیکن فی الحال، مائع نائٹروجن میں تیرتی یہ منجمد لاشیں انسان کی موت کو چیلنج کرنے کی شدید خواہش کی خاموش گواہ بنی ہوئی ہیں۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 108 Articles with 77040 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.