سانحہ سوات! پاکستان کی سیاحتی تاریخ کا بدترین واقعہ

سانحہ سوات ، درجنوں قیمتی جانوں کا ضیاع ، انتظامی غفلت کی انتہا ہے جسے کسی صورت بھلایا نہیں جا سکے گا، سوات کے عوام متاثرہ خاندانوں کی غم میں برابر کی شریک ہے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ذمہ داروں کو نشان عبرت بنایا جائے !
فضل خالق خان(سوات)
سوات کی حسین وادی جو ہمیشہ سیاحوں کے لیے کشش کا مرکز رہی ہے،27جون 2025 کی صبح ایک ہولناک سانحے کا شکار بنی۔ دریائے سوات میں آنے والی طغیانی کے باعث سیالکوٹ کے ایک ہی خاندان کے 18 افراد سمیت مجموعی طور پر 44 افراد سیلابی ریلے کے نذر ہوئے۔یہ سانحہ محض ایک قدرتی آفت نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے کئی انتظامی کوتاہیاں اور غفلتیں کارفرما دکھائی دیتی ہیں۔
سوات میں 27 جون کا دن ایک المناک سانحے کا گواہ بن گیا، جب دریائے سوات میں آنے والے اچانک سیلابی ریلے نے درجنوں سیاحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 18 افراد سیر و تفریح کے لیے آئے تھے، جو مینگورہ بائی پاس پر دریا کے کنارے ناشتہ کرنے کے بعد سیلفیاں لینے میں مصروف تھے کہ قدرت نے مہلت دیے بغیر اپنا قہر دکھا دیا۔
ریسکیو 1122 کے مطابق اس رپورٹ کے مرتب ہونے تک 11 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، 4 کو زندہ بچالیا گیا ہے جبکہ 2 افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔ اس سانحے میں جان بحق ہونے والوں میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔واقعہ میں جاں بحق 9 لاشیں ڈسکہ اور 2 لاشیں مردان منتقل کی جا چکی ہیں۔متاثرہ خاندان کے حافظ عمران ، احمد علی اور مدین کے رہائشی عبدالکریم نے حادثہ کے بارے میںبتایا۔
"ہم ناشتہ کرنے کے بعد دریا کے کنارے بیٹھے تھے، بچے سیلفیاں بنا رہے تھے، بارش شروع ہوئی اور ہم سمجھے عام سا موسم ہے۔ لیکن اچانک پانی کا شدید ریلا آیا اور ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔"واضح رہے کہ مون سون کی بارشوں کا موسم شروع ہونے کے تناظر میں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے نے باقاعدہ طورپر سیلاب کے خدشات کی وارننگ جاری کردی تھی اور ضلعی انتظامیہ نے مون سون بارشوں کے پیش نظر پہلے ہی سے دفعہ 144 نافذ کر رکھی تھی جس کے تحت دریا کے کنارے جانے، نہانے یا کشتی رانی پر مکمل پابندی عائد تھی لیکن انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے پابندی پرعمل درآمد نہیں ہورہا تھا ۔ اس کے باوجود درجنوں سیاح بے فکری کے ساتھ دریا کے کنارے گھوم پھر رہے تھے جو بالآخر اس دل دہلا دینے والے سانحے کا سبب بنا۔
ریسکیو 1122 کی غفلت بھی اس سانحے میں کھل کر سامنے آگئی ہے ،اس واقعے کے بعد سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ ریسکیو 1122 اور ضلعی انتظامیہ بنی۔ موقع پر موجود افراد کے مطابق ریسکیو ٹیمیں بار بار مطلع کرنے کے باوجود ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچیں، اور جب پہنچیں تو ان کے پاس نا تو مناسب کشتیاں تھیں، نہ ہی دریا کے بیچ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے کوئی سامان یاجامع حکمت عملی۔ریسکیو اپریشن میں ناکامی پر کچھ گھنٹے بعد ریسکیو اہلکار منظر سے ہی غائب ہو گئے اور پھر ان کے فون نمبرز بھی بند ملے۔
سانحہ کے دوسرے روز جب قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور لوگ اپنے پیاروں کو دریابرد ہونے کے بعد دہائیاں دیتے رہے تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور جاگے اوران کی ہدایت پر چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ نے سوات کا دورہ کیا اور صورتحال جانچنے کے بعد ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب کو غفلت پر معطل کردیاگیا اس سے قبل اے سی بابوزئی،اے سی خوازہ خیلہ،ایڈیشنل ڈی سی (ریلیف) اور ریسکیو 1122 سوات کے انچارج کو بھی غفلت پر معطل کیا گیا تھا۔ چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ نے متاثرہ جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے میڈیا کی نشان دہی پر ریور بیڈ پر قائم ہوٹلوں اور تجاوزات کے خاتمے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ "انسانی جانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے، غفلت ناقابلِ معافی جرم ہے، اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔"
انہوں نے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی خیام حسن کر رہے ہیں۔ یہ ٹیم 72 گھنٹوں کے اندر رپورٹ پیش کرے گی۔ سیلاب کی بروقت اطلاع نہ دینے اور سیاحوں کو خبردار نہ کرنے کی وجوہات پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
سانحہ پر پورے سوات کی فضا سوگوار ہے اور لوگ غم کی کیفیت میں ہیں ،عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سانحات محض قدرتی نہیں بلکہ سیاسی مداخلت اور انتظامیہ کی نالائقی کی وجہ سے بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ریسکیو، انتظامیہ اور محکمہ موسمیات کے درمیان روابط کا فقدان، سہولیات کی کمی، اور لاپرواہی نے اس حادثے کو جنم دیا۔سوشل میڈیا اور احتجاجی مظاہروں میں عوام نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف قتلِ بالسبب کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔
ماہ جون کے اختتام پر سوات میں شدید بارشوں کی پیش گوئی محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کی گئی تھی،محکمہ موسمیات نے 24 جون کو ہی سوات، دیر، اور شانگلہ میں شدید بارشوں اور ممکنہ طغیانی کی پیش گوئی جاری کی تھی۔PDMA خیبرپختونخوا کی ایڈوائزری نمبر: PDMA/FloodAlert/2025-06/212 میں تمام ڈپٹی کمشنرز، پولیس، اور ریسکیو اداروں کو الرٹ رہنے کا کہا گیا تھا۔
مگر ضلعی انتظامیہ، ٹی ایم ایز، اور ضلعی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (DDMA) کی طرف سے کوئی مو¿ثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ مقامی ہوٹل مالکان نے سیاحوں کو دریا کنارے رہائش فراہم کی لیکن احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی نہیں دی، پولیس کی جانب سے بھی کسی قسم کی روک ٹوک دیکھنے میں نہیں آئی۔درجنوں ہوٹل غیرقانونی طور پر ریور بیڈ پر قائم ہیں،چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کے مطابق دریائے سوات کے اندر اور کنارے پر قائم اکثریتی ہوٹل غیرقانونی ہیں۔ ریور بیڈ میں ہوٹل بنانا قانوناً جرم ہے، اور کئی بار ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا، مگر مو¿ثر عملدرآمد کبھی نہ ہو سکا۔ اس سانحے کے بعد انکشاف ہوا کہ بعض ہوٹل سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے تجاوزات کی کارروائی سے محفوظ تھے۔سوات میں 2010 اور 2022 کے سیلابوں کے بعد بھی حکومتی اداروں نے رپورٹیں تیار کی تھیں جن میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ دریا کے بیڈ سے مائننگ، ہوٹلنگ اور تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے۔ مگر ان رپورٹس کو صرف فائلوں کی زینت بنایا گیا۔
سانحہ میں جاں بحق ہونے والے سیاحوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے پہلے خطرے سے آگاہ نہیں کیا، نہ ہی ہوٹل مالکان نے کسی قسم کی وارننگ دی۔ وہ لوگ خوشی سے سیر کو آئے تھے مگر واپس تابوتوں میں گئے۔ متاثرہ خواتین کی آہیں آج بھی سوات کی فضاو¿ں میں سنائی دیتی ہیں۔
27 جون کو ہونے والا سوات کا واقعہ پاکستان کی سیاحتی تاریخ کا ایک المنا ک حادثہ ہے ، اللہ تعالیٰ سے دعاگو رہیں گے کہ ایسے سانحات کبھی بھی دوبارہ رونما نہ ہوں لیکن اس حوالے سے کچھ تجاویز ہیں کہ دریا کے کنارے پکی حفاظتی دیواریں تعمیر کی جائیں۔سیاحتی مقامات پر ریسکیو اسٹیشنز قائم کیے جائیں۔ڈیجیٹل الارم سسٹم لگائے جائیں جو سیلاب کی پیشگی وارننگ دیں۔سیاحوں کی رجسٹریشن اور ان کے لیے بریفنگ کو لازمی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ دریائے سوات جسے کرش مافیا نے سیاسی مداخلت اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے کھنڈرات کا نمونہ بنادیا ہے ،دریائے سوات سے ریت اور بجری نکالنے کے عمل پر مستقل طورپر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اس حوالے سے سیاسی مداخلت کا عنصر جو اس وقت زوروں پر ہے اس کو روکنے کے لیے آزاد ادارہ جاتی نگرانی مقرر کی جائے۔
سوات کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے۔ مگر اگر حکومت سیاحت کے تحفظات پر توجہ نہ دے، سیاح خود کو غیرمحفوظ سمجھیں، تو معیشت کو بھی دھچکا لگے گا اور انسانی جانوں کا زیاں تو خیر کب کا جاری ہے۔ کیا واقعی یہ آخری سانحہ ہو گا؟کیا تجاوزات کے خلاف آپریشن مکمل ہو گا؟کیا مائننگ مافیا کے خلاف مقدمات چلیں گے؟کیا حکومتی وعدے اس بار بھی وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گے؟اگر ان سوالوں کے جواب نفی میں ہیں، تو سمجھ لیجیے کہ یہ آخری سانحہ ہرگز نہیں ہو گا۔
سوات، جو کبھی حسن و امن کی علامت تھا، اب حادثات، غفلت اور ناقص حکمرانی کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اگر سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے، تو سیاحت، جو خوشحالی کا ذریعہ ہے، انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی رہے گی۔اس حوالے سے عوامی احتجاج اور میڈیا کی شدید کوریج کے بعد سوات کے ڈپٹی کمشنر شہزاد محبوب، اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار، اور ٹی ایم اے اہلکاروں کو معطل تو کر دیا گیا لیکن کیا یہ اس کی تلافی ہوسکتی ہے جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔دریائے سوات کا پانی حسین ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے رحم بھی ہے۔ یہ سانحہ ایک سخت پیغام ہے ان لوگوں کیلئے جو دریا کی حدود سے کھلواڑ کررہے ہیں کہ اگر ہم نے قدرتی حدود کی خلاف ورزی بند نہ کی، اگر حکومتی ادارے خوابِ غفلت سے نہ جاگے، تو کل پھر کوئی اور خاندان اپنی خوشیاں لے کر آئے گا اور کفن لے کر واپس جائے گا۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 108 Articles with 76838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.