ہر تمنا دل سے رُخصت ہو گئی اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی۔
یہ دو مصرعے، چند الفاظ میں، ایک ایسی روح کی مکمل کہانی سناتے ہیں جو دنیا کے تھپیڑوں سے چور چور ہو چکی ہے۔ یہ محض غم کا اظہار نہیں، نہ ہی عام سی مایوسی کی آہ ہے۔ یہ تو ایک ایسے مسافر کا اعلانِ برات ہے جس نے زندگی کی تمام منزلیں طے کر لی ہیں، ہر بازارِ ہوس کے چکر لگا لیے ہیں، اور اب اس کے سفر کا آخری اور واحد مقصد صرف ایک ہے: واپسی۔ اصل گھر کی طرف۔ اس "ایک" کی طرف جو کہیں کھو گیا ہے – اور وہ "ایک" کون ہے؟ کیا یہ کوئی محبوب ہے؟ کیا یہ خودِ ذاتِ کائنات کا حصہ ہے؟ یا پھر یہ موت کی آغوش ہے، جسے ہم سب نے کسی نہ کسی "محبوب" سے تعبیر کیا ہے؟
دیکھیں تو دنیا کی تمام چاہتیں، تمام تمناؤں، تمام ارمان – یہ سب دراصل ہمیں زندہ رکھنے کا ایک نظام ہیں۔ یہی ہمیں صبح اٹھاتی ہیں، محنت پر اکساتی ہیں، تعلقات بنانے پر مجبور کرتی ہیں، دولت اور عزت کے پیچھے بھگاتی ہیں۔ یہ ایک لامتناہی دوڑ ہے، جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ ایک تمنا پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھا لیتی ہے، جیسے ہائیڈرا کے سر۔ اس دوڑ میں انسان خود کو کھو دیتا ہے۔ اس کی ذات، اس کا سکون، اس کی حقیقی خواہشات، دنیا کے شور اور اپنی ہی لالچ کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جسم تھک جاتا ہے، ذہن تھک جاتا ہے، لیکن دل کی تمناؤں کا پہیہ رکتا نہیں۔ یہی "دنیا کی تھکا دینے والی چاہتیں" ہیں۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو آدمی کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے، اس کی روح کو کھوکھلا کر دیتا ہے، اسے ایک مشین بنا دیتا ہے جو صرف حصول کے لیے چلتی رہتی ہے، بغیر یہ جانے کہ آخر مقصد کیا ہے۔
پھر وہ لمحہ آتا ہے جب دل سے "ہر تمنا رخصت ہو جاتی ہے۔" یہ رخصتی عام طور پر کسی بڑی مصیبت، کسی گہرے صدمے، یا زندگی کے تجربات کی انتہائی کڑوی سچائی کے بعد آتی ہے۔ یہ کوئی جذباتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک گہری بصیرت کا نتیجہ ہے۔ انسان دیکھتا ہے کہ جس شے کے پیچھے وہ پوری زندگی دوڑتا رہا، وہ یا تو اسے مل کر بھی نہ مل سکی، یا مل کر بھی اس نے سکون نہ دیا۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ تمام تمناؤں، یہ تمام کھیل، یہ تمام حصول و خسارے – سب بے معنی ہیں۔ یہ ایک مکمل یکسوئی (Disillusionment) کا لمحہ ہے۔ دل اپنے تمام تر خراج، تمام تر آرزوئوں، تمام تر لالچوں اور خوفوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ وہ خالی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ خالی پن، جو عام طور پر خوفناک تصور کیا جاتا ہے، اس شعر میں ایک عجیب سی پُر سکون تیاری کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ یہ خالی پن ہی تو ہے جو "خلوت" کو ممکن بناتا ہے۔
اور یہیں سے "موت کی فریاد" جنم لیتی ہے۔ "اب تو آ جا۔" یہ کوئی مایوسانہ خودکشی کی تمنا نہیں۔ یہ ایک پختہ عزم، ایک واضح دعوت ہے۔ جب دل سے دنیا کی تمام تمناؤں کا خاتمہ ہو جاتا ہے، تو موت ایک خوفناک شکنجہ نہیں رہتی، بلکہ ایک مہمانِ خاص بن جاتی ہے، جس کے استقبال کے لیے دل تیار ہے۔ موت، اس تناظر میں، محبوب سے ملنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ کون ہے یہ محبوب؟ شاید وہ حقیقی ذات جو دنیاوی لبادوں میں کھو گئی تھی۔ شاید وہ مطلق حقیقت (خدا) جس سے ہماری روح کا رشتہ فطری ہے۔ شاید وہ ابتدائی وحدت (Unity) جس سے ہم جدا ہوئے تھے۔ موت، اس نقطہ نظر سے، بچھڑے ہوئے کو پانے کا واحد راستہ ہے۔ "خلوت ہو گئی" کا اعلان اس بات کی شہادت ہے کہ اب کوئی دنیاوی شور، کوئی اندرونی کشمکش، اس ملاقات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ دل مکمل طور پر خالی اور تیار ہے۔ یہ خلوت، دنیا سے کنارہ کشی نہیں، بلکہ ایک اندرونی صفائی اور مرکزیت کا نام ہے، جو آخری سفر کے لیے لازمی ہے۔
یہیں وہ المناک اور گہرا تضاد آتا ہے جس پر آپ نے زور دیا ہے: "سب کچھ مل جانے کے باوجود۔" تصور کریں ایک ایسا انسان جس کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے – دولت، شہرت، طاقت، علم، محبت کے ظاہری اظہار۔ اس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کے لیے عام انسان ترستے ہیں۔ لیکن اس کے دل کی گہرائیوں سے یہ فریاد بلند ہوتی ہے: "اب تو آ جا۔" کیوں؟ کیونکہ اس "سب کچھ" میں وہ "ایک" چیز نہیں جو اصل میں اہمیت رکھتی ہے۔ وہ "ایک" جو کہیں کھو گیا ہے۔ شاید یہ وہ سادگی، وہ معصومیت، وہ حقیقی تعلق، وہ روحانی اطمینان ہے جو دنیاوی کامیابیوں کے شور میں دفن ہو گیا۔ شاید یہ خود اس کی اپنی حقیقی شناخت ہے جو مادی حصول کی دوڑ میں گم ہو گئی۔ "سب کچھ" مل جانا دراصل اس خلا کو اور گہرا کر دیتا ہے، کیونکہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس خلا کو پر نہیں کر سکتیں جو اس "بچھڑے ہوئے انسان" (خواہ وہ خود کی اصلیت ہو، خدا ہو، یا کوئی گمشدہ محبوب) کی غیر موجودگی سے پیدا ہوا ہے۔ دنیاوی کامیابیاں اس درد کا مداوا نہیں کر سکتیں، بلکہ اکثر اسے مزید شدید کر دیتی ہیں، کیونکہ وہ ظاہری چمک دمک کے پیچھے چھپے ہوئے خلا کو اور نمایاں کر دیتی ہیں۔
یہ فریاد، "اب تو آ جا"، اسی "بچھڑے ہوئے انسان" سے اس کی واپسی کی فریاد ہے۔ یہ ایک ایسی التجا ہے جو تمام منطق، تمام دنیاوی حساب کتاب سے ماورا ہے۔ یہ روح کی گہرائی سے نکلتی ہے، جہاں وقت اور مادے کی قید نہیں ہوتی۔ یہ کہتی ہے کہ تجربے کی تمام منزلیں طے کر لیں، امتحان دے دیے، تمناؤں کا جنازہ پڑھ لیا، اب بس اتنا کر کہ واپس آ جا۔ یہ واپسی صرف جسمانی ملاقات نہیں؛ یہ ایک مکمل اتحاد (Reunion) ہے، ایک ایسی وحدت میں ضم ہونے کا نام ہے جہاں دوئیت (Duality) کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ "خلوت" کا مطلب ہی یہی ہے کہ اب صرف "وہ" اور "میں" رہ گئے ہیں، بلکہ شاید "میں" بھی نہ رہا، صرف "وہ" رہ گیا۔ یہ فریاد دراصل ایک اعترافِ عجز بھی ہے کہ اب میرے پاس دعوت دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اور ایک پختہ یقین بھی کہ اب تمہارا آنا یقینی ہے، کیونکہ تمام رکاوٹیں (تمناؤں کی صورت میں) دور ہو چکی ہیں۔
اس شعر اور اس کے پیغام کو سمجھنا زندگی کے ایک انتہائی گہرے اور کڑوے سچ سے رُو برو ہونا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام تر رعنائیاں، تمام تر کامیابیاں، ہمارے اندر کے ایک بنیادی سوال – "میں کون ہوں؟" اور "مجھے آخر چاہیے کیا؟" – کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتیں۔ یہ اُس وقت تک کھٹکتی رہتی ہیں جب تک ہم اس "ایک" کو نہیں پا لیتے، جو ہماری حقیقت کا مرکز ہے۔ "ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی" کا سفر ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتا ہے، لیکن جو روح اس منزل کو پہنچ جاتی ہے، اس کی آواز میں ایک ایسی سچائی اور سکون ہوتا ہے جو دنیا کے تمام شور پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہ پکارتی ہے، نہ کسی لالچ میں، نہ کسی خوف میں، بلکہ ایک مکمل تیاری اور انتہائی خلوص کے ساتھ، اس "واحد" کے لیے جس کے بغیر "سب کچھ" بھی "کچھ نہیں" ہے: اب تو آ جا۔ کیونکہ اب، آخرکار، ہر چیز جو تمہیں روک سکتی تھی، وہ جا چکی ہے۔ راستہ صاف ہے۔ بس تم ہو، اور میں ہوں، اور یہ خاموشی جو ہماری ملاقات کا انتظار کر رہی ہے۔ |