اصلاح معاشرہ
(Babar Alyas , Chichawatni)
اصلاحِ معاشرہ تحریر ۔۔۔۔ بابرالیاس
> "اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ" (بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے) سورہ الرعد، آیت 11)
معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے، اور جب افراد کی سوچ، عادات اور کردار میں بگاڑ آ جائے تو پورا معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کا مطلب ہے ان تمام برائیوں، خرابیوں اور ناہمواریوں کا ازالہ کرنا جو معاشرتی زندگی کو تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ عمل محض حکومتوں یا اداروں کا فرض نہیں بلکہ ہر فردِ واحد پر معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ تربیت کے یہ ابتدائی مراحل گھر سے شروع ہوتے ہیں اور والدین اس تربیت کے سب سے بڑے استاد ہیں ، اولاد پر فرض ہے کہ والدین کی بات پر عمل کریں اور سبق حاصل کریں کیونکہ وہ زندگی گزار کر ہی اس اسٹیج پر پہنچتے ہیں ۔ آج ہمارا معاشرہ جھوٹ، فریب، بددیانتی، اخلاقی گراوٹ، بے حیائی، ظلم، ناانصافی اور خودغرضی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ ہم اگر اپنی نسلوں کو ایک بہتر، محفوظ اور بااخلاق ماحول دینا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر معاشرتی اصلاح کے عمل کو اپنانا ہوگا۔
انفرادی کردار کی اصلاح! ہر فرد خود احتسابی کرے، اپنی سوچ اور عمل کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالے۔ اصلاح کا عمل دل سے شروع ہوتا ہے، زبان اور عمل تک پہنچتا ہے، اور معاشرہ اس کا عکس بن جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت! بامقصد اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم ہی معاشرتی بیداری کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ صرف ڈگری حاصل کرنا کافی نہیں، کردار کی تعمیر ضروری ہے۔
اچھے اخلاق اور رواداری ! معاشرتی ہم آہنگی کے لیے سچائی، بردباری، انصاف، ایثار، اور حسنِ سلوک لازم ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ان تمام خوبیوں کا عملی نمونہ ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر! بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایک دینی فریضہ ہے۔ اگر ہم بے حسی کی چادر اوڑھ کر بیٹھے رہیں گے تو بگاڑ بڑھتا جائے گا۔
قانون کی بالادستی! معاشرتی اصلاح اس وقت ممکن ہے جب قانون سب کے لیے برابر ہو، اور عدل و انصاف بغیر کسی تفریق کے مہیا کیا جائے۔
اصلاحِ معاشرہ ایک تدریجی مگر نہایت اہم فریضہ ہے۔ اگر ہم سب انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کریں تو ایک پرامن، بااخلاق اور مہذب معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ یاد رکھیں! چراغ سے چراغ جلتا ہے، اور ایک نیک انسان کئی دلوں کو بدلنے کا سبب بن سکتا ہے۔لیکن پہلی کوشش خود سے کریں ۔
|
|