چین کی سائنسی ترقی کا راز
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چین کی سائنسی ترقی کا راز تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ چین کی سائنس و ٹیکنالوجی نے حالیہ برسوں میں تاریخ کی کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تاریخی پیش رفت کی بدولت چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کی تیز رفتار ترقی کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر مسلسل توجہ دینا ہے۔
حالیہ برسوں میں چین نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئےمستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فروغ ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔ چونکہ چین نے چودہویں پانچ سالہ منصوبہ (2021-2025) کے دوران معیاری ترقی کے لیے جدت طرازی کو غیر معمولی ترجیح دی ہے،اسی باعث ملک کی جدت طرازی کی صلاحیت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں تحقیق و ترقی پر چین کے اخراجات دوسرے نمبر پر رہے۔
2024 میں، چین کا تحقیق و ترقی کا بجٹ تقریباً 500 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو تمام ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے اور تیرہویں پانچ سالہ منصوبہ کے اختتام (2020) کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد زیادہ ہے۔کاروباری ادارے تحقیق و ترقی کے اخراجات میں تیزی سے اضافے کے اہم محرک کے طور پر ابھرے ہیں، جو مجموعی طور پر 77 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی تحقیق و ترقی کی لیبر فورس ہونے کے ساتھ، چین اب دنیا کے سو اعلیٰ سائنسی و تکنیکی جدت کاری مراکز میں سے 26 کا گھر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں 4 لاکھ 60 ہزار سے زائد ہائی اینڈ نیو ٹیک ادارے موجود ہیں، جو مل کر سائنسی و تکنیکی جدت کاری اور صنعتی جدت کاری کے گہرے انضمام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ 2024 میں، چین کی انٹیگریٹڈ سرکٹس (آئی سی) کی سالانہ پیداوار تیرہویں پانچ سالہ منصوبہ کے اختتام (2020) کے مقابلے میں تقریباً 190 ارب زیادہ تھی، جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مصنوعات پر چائنیز چپس لگ رہی ہیں۔
اسی دوران، چین کے نئے صنعتی شعبوں ، نئے کاروباری ماڈلز ، اور نئے طرزِ تجارت کی معاشی اضافی قدر گزشتہ سال 24 کھرب یوآن (تقریباً 3.35 ٹریلین ڈالر) سے تجاوز کر گئی۔ یہ پیمانہ بیجنگ، شنگھائی اور گوانگ دونگ جیسے بڑے معاشی مراکز کے مجموعی جی ڈی پی کے برابر ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں اصلاحات گزشتہ ایک سے زائد دہائی میں چین کے لیے ایک اہم کام رہا ہے، کیونکہ چینی قیادت نے خود ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بے شمار ادارہ جاتی اصلاحات کی تجاویز اور اہم ہدایات جاری کی ہیں۔ اس ضمن میں چین نے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کاروباری اداروں کی طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔
ملک نے تاریخ میں پہلی بار سائنس ٹیک ایڈوائزری اور اخلاقیات کے لیے قومی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے نظام نے سائنسدانوں کو پیچیدہ اور غیر ضروری سرخ فیتے سے آزاد کرنے کے لیے بجٹ اور تحقیقی سمت پر مزید کنٹرول بھی دیا ہے۔
تاہم، اس قدر ترقی کے باوجود چین یہ سمجھتا ہے کہ سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی میں اب بھی مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔چینی قیادت کوشش کر رہی ہے کہ اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے کچھ دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے اور صحیح سمت میں آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف چینی عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کو سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے ثمرات سے مستفید کیا جائے۔
|
|