ڈرون کا شہر سے دیہات کا سفر
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
New Page 2
ڈرون کا شہر سے دیہات کا سفر تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں چین کے حوالے سے ایک زبردست خبر نظر سے گزری جس میں بتایا گیا کہ چین کے صوبے ہینان نے ڈرون کے ذریعے ڈاک کی پہلی خدمت کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ خدمت دیہاتیوں کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے اور دور دراز علاقوں میں لاجسٹکس کے چیلنجز کا حل پیش کرتی ہے۔یہ ڈرون پہاڑوں کے گہرائی میں واقع دور دراز اور بلند سطح پر واقع گاؤوں تک ڈاک اور سامان پہنچا رہے ہیں، جو پہلے پہنچنا مشکل تھے۔یہ ڈرون ڈیلیوری سروس 11 راستوں پر چلتی ہے، جو روزانہ ایک سے دو شیڈولڈ پروازیں انجام دیتے ہیں۔ اس سے 11 گاؤوں کے 4 ہزار سے زائد رہائشی مستفید ہو رہے ہیں۔
سطح سمندر سے 1,100 میٹر کی بلندی پر واقع گاؤں کے رہائشیوں کو پہلے ڈاک آفس تک جانے اور واپس آنے میں چار گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ ڈرون ڈیلیوری سروس کے ذریعے، اب پارسلز صرف سات منٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ ڈرون ڈیلیوری کی قیمت قابلِ برداشت ہے۔ چھوٹے پیکجز کے پہلے کلوگرام کی قیمت تقریباً آٹھ یوآن جبکہ ہر اضافی کلوگرام کے لیے تقریباً چار یوآن ہے۔یوں ڈرون ڈیلیوری کا استعمال پیچیدہ جغرافیائی حالات اور محدود نقل و حمل کی رسائی والے علاقوں میں موجود رسد کے چیلنجز کو حل کر رہا ہے۔یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ چین میں ڈرون ڈیلیوری آپریشن کا مستقبل کا مارکیٹ سائز 120 ارب یوآن سے تجاوز کر سکتا ہے۔
یہ منظر نامہ چین کی کم اونچائی والی معیشت میں آہستہ آہستہ آنے والے انقلاب کی علامت ہے جو اب ایک نئے تجربے سے نکل کر ضروری عملی استعمال میں تبدیل ہو چکی ہے۔2024 اور 2025 کی مرکزی حکومتی رپورٹس میں شامل ہونے کے بعد یہ شعبہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ چین کی سول ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے اندازے کے مطابق 2025 تک اس مارکیٹ کا حجم 1.5 ٹریلین یوآن (209.8 ارب ڈالر) تک پہنچ جائے گا جبکہ 2035 تک یہ 3.5 ٹریلین یوآن تک بڑھنے کا امکان ہے۔
کئی ٹن وزن اٹھانے والے کارگو ڈرونز، 4 مسافروں والے برقی عمودی طیارے اور جدید مواصلاتی نظام جیسی ایجادات نے اس شعبے کی متنوع شکلوں کا مظاہرہ کیا ہے جن کے اطلاقات لاجسٹکس، مسافر ٹرانسپورٹ، سیاحت، عوامی سلامتی، ہنگامی خدمات، سروے اور زراعت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت چین میں کم اونچائی والی معیشت روایتی خدمات سے مربوط شکلوں کی جانب سفر کر رہی ہے جہاں زراعت، لاجسٹکس، سیاحت اور ہنگامی خدمات میں گہری ترقی پوری ویلیو چین کو نئی شکل دے رہی ہے۔
یہ ترقی چین کے مشرقی مراکز سے نکل کر وسطی اور مغربی علاقوں تک پھیل رہی ہے جس کی رسائی شہروں سے آگے دیہات تک جا پہنچی ہے۔ چین بھر کے مختلف علاقے اپنے منفرد جغرافیے کو بروئے کار لاتے ہوئے شہری زندگی اور صنعت کے ساتھ مربوط کم ارتفاعی آپریشنز کا ماحولیاتی نظام تعمیر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر دور دراز علاقوں میں ڈرونز لاجسٹکس کو بدل رہے ہیں۔
محض شینزین شہر میں ہی 483 کم اونچائی والے ٹیک آف/لینڈنگ پوائنٹس اور پائیدار شہر گیر حفاظتی نیٹ ورک قائم کیا جا چکا ہے۔ شمال مغربی سنکیانگ کے التائی پریفیکچر میں ڈرونز سبزہ زاروں کی ماحولیاتی نگرانی کی کارکردگی بڑھا رہے ہیں۔کم اونچائی والی معیشت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی بدولت چینی لوگوں کے نزدیک اب یہ کوئی دور کی صنعت نہیں رہی ہے بلکہ اُن کے دروازے پر موجود ہے اور زمین کی بجائے فضا سے دنیا کو دیکھنا حیرت انگیز تجربہ ہے۔
ماہرین کا متفقہ خیال ہے کہ ہوائی جہاز سازی، پرواز سروسز اور متنوع اطلاقی منظرناموں میں تیز ترقی، مضبوط صنعتی زنجیر اور بڑھتی ہوئی اختراع چین کی کم اوبچائی والی معیشت کو بے مثال عروج پر پہنچا رہی ہیں۔ملک میں مسلسل پالیسی بہتری اور تکنیکی پیشرفتوں کے ساتھ چین کی کم اونچائی والی معیشت کا دائرہ کار مزید وسیع ہوگا۔یہ وسیع "نیلے آسمان" والی مارکیٹ غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے جو معاشی و سماجی ترقی میں نئی توانائی فراہم کرے گی۔ |
|