"دروازے کھڑی بارات چھیدو لڑکی کی ناک " اگر ہم اس دنیا اور انسانوں کے زندگی پر نظر ڈالیں تو خدا نے یہ دنیا بہت پیاری بنا ہی ہے مگر کچھ دنوں سے میں اس فکر میں مبتلا ہوں کہ اس ذندگی کو ہم نے اپنے فکر و خیال سے کافی محدود کردی ہیں کیوں کہ حالیہ دنوں میں مسلسل کچھ واقعات نے مجھے کافی سوچنے پر مجبور کیا کہ اب ہم نے اپنی ذندگی اتنی محدود کردی کہ ایک محاورے میں اسانی سے ضم ہوجاتی ہے. کچھ وقتوں پہلے ہمارے گھرچھ ماہ کی ایک بیوہ خاتون اتی تھی جس کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور اپنے حمل کے اخری مراحل سے گزر رہی تھی لیکن ایک ماہ بعد پتہ چلا کہ وہ اپنے خیمے میں مردہ جسم کے طور پر ملی کیوں کہ وہ دوران زچگی کسی ڈاکٹر اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اخری سانسوں کا حساب بھی پورا کر چکی تھی کسی کو اس کی خبر نہیں تھی اور نہ ہی اس کے مالی حالات میں کسی نے مدد کی لیکن جب وہ اپنی زندگی کی بازی ہار چکی تھی تب سب کو اس کی طرف نظر ثانی کرنی پڑی. اسی طرح کا ایک اور واقعہ حمیرا اصغر کی سن کر بہت افسوس ہوا کہ اس کے پاس اتنا کچھ ہوتے ہوے بھی کچھ نہیں تھا کیا کسی کو اتنے وقت میں خبر نہیں ہوہی کہ زمین کے اس مقام میں ایک بندہ رہتا ہے کیا وہ زندہ ہے یا مردہ? مگر نہیں ہمارا معاشرہ اس قدر بے درد اور بے فکر ہو گیا ہے کہ اپنے قریب زندہ اور مردہ میں فرق نہیں کر سکتا اور جب یہی بندہ اپنی جان اور زندگی ہار جاتا ہے تو دروازے پر بارات کھڑی ہوجا تی ہیں اور پھر جانچ پڑتال شروع ہوجاتی ہے اہ وزاری ہوتی ہے افسوس کے مرثیے بولے جاتے ہیں شاہد اس سے پہلے ہم خود مردہ حالت میں جی رہے ہوتے ہیں اسی لیے کسی دوسرے کی فکر نہیں ہوتی ہے. حمیرا اصغر کے حوالے سے اگر دیکھے تو ایک غلطی سوشل میڈیا کی بھی ہے جو عورت کے ازادی کے حوالے سے عورتوں کی چاردیواری کو پامال کررہی ہے جو اج کل کے فیمینزم کے نعرے ہیں مگر عورتوں کو ان کا صیح مقام دلانے سے قاصر ہے دوسری غلطی اج کل کے والدین کی بھی ہیں جہنوں نے اپنے بچوں کو وقت دینے اور ان کی اصلاح کیے بغیر مکمل طور سوشل میڈیا کے حوالے کیا ہے جو اج کل کے نسلوں کو منفی ردعمل دے رہے ہیں لیکن اگر والدین اپنے اولاد کو ابراہم مسلو کے تھیوری کے مطابق درجہ بہ درجہ ان کے نفسیات کا جاہزہ اور قدر کریں تو شاہد اس کے بعد دنیا کے کسی بھی والدین کو حمیرا اصغر جیسی بیٹی کے موت سے سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور نہ ہی اپنے ماں باپ کے ہوتے ہوے لڑکی کو ناک چھدواتے وقت دروازے پر بارات کھڑی ہوگی. ہمارے معاشرے کو اپنے اندر فکر و خیال اور محبت و ہمدردی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تو پھر نہ کوہی لاچار عورت زچگی کے دوران اپنی حسین زندگی کوالله حافظ بولے گی نہ کوہی اور حمیرا اصغر جیسی جوان لڑکیاں جزباتی ہوکر اپنے والدین اور بہن بھاہیوں سے الگ تنہا زندگی گزار کر بے رحم موت کے سہارے اپنی زندگی سے ہاتھ دھوہیں گی
" کہنے لگے ہم کو تباہی کاغم نہیں میں نے کہاکہ وجہ تباہی یہی تو ہے! ہم لوگ ہیں عذاب الہی سے بے خبر اے بے خبر!عذاب الہی یہی تو ہے.." طیبہ سنزر (سام جی) Phn nmbr:03158040647 Name:Tayaba sanzar |