گھریلو تشدد ۔۔۔ اسلامی معاشرہ اور ہم!
(Wasiq Peerzadah, Rahim Yar Khan)
گھریلو تشدد ۔۔۔ اسلامی معاشرہ اور ہم:
الحمدللّٰہ ہم مسلمان ہیں اور ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں ۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ "تشدد" وہ شجر ممنوعہ ہے کہ جس کے نذدیک جانے کی اجازت اس (باپ) کو بھی نہیں جس کا مرتبہ بیان کرتے رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ "تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہیں" ۔ لیکن جس باپ کی ہم "ملکیت" ہیں اسے بھی اپنی ملکیت (اولاد) پر تشدد کا حق اللّٰہ تعالٰی نے بالکل نہیں دیا ۔ مگر افسوس آج اسی اسلامی معاشرے کا سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گھریلو تشدد (ذہنی و جسمانی) کی ویڈیوز، خبروں اور خبروں پر بننے والے پروگرامز و ڈراموں سے بھرا پڑا ہے ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” آگاہ ہو جاؤ ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ پس امام ( امیرالمؤمنین ) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا ۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش ہو گی ۔“ (حدیث # 7138، صحیح البخاری) یہ حدیث مبارکہ تقریباً ہم سب نے ہی اپنے بچپن سے سن رکھی ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس کو بیان عموماً صرف اور صرف حکمرانوں پر تنقید کی خاطر کیا جاتا ہے ۔ جبکہ حدیث مبارکہ میں واضح طور پر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ تمام مردوں، عورتوں اور ماتحتوں کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ ان سے بھی ان کی رعایا (Dependents) کے بارے میں پرسش یا پوچھ گچھ کی جائے گی ۔ ماتحتوں سے پوچھا جائے گا کہ جس کام کی تکمیل یا مال کی حفاظت کا انہیں معاوضہ ملتا تھا اسے کیسے نبھایا؟ اور ظاہر ہے کہ مالکان سے بھی کہ ان کا ماتحتوں کے ساتھ رویہ و سلوک پوچھا جائے گا کیسا تھا؟ کیونکہ جب رسول اللّٰہ ﷺ سے ماتحتوں کے ساتھ سلوک سے متعلق پوچھا کہ "اللّٰہ کے رسول ﷺ! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے، اس نے پھر پوچھا: اللّٰہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہر دن ۷۰ ( ستر ) بار معاف کرو“۔ (حدیث # 1949، جامع ترمذی) اس حدیث مبارکہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ ان ماتحتوں (نوکروں و ملازموں) کی تمام غلطیوں کو ہر صورت معاف کرنے کے حق میں تھے ۔ لیکن افسوس کہ ہمارا میڈیا آئے روز چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وجہ سے ان پر کئے جانے والے بے رحمانہ تشدد اور اس سے ہونے والی اموات کی خبروں اور ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے ۔ اسی طرح عورتوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ اس پر اس کے شوہر، اس کے بچوں اور اس کے گھر و گھر والوں کو سنبھالنے کی جو زمہ داری اللّٰہ کی طرف سے عائد کی گئی تھی اسے کیسے نبھایا؟ (اور رسول اللّٰہ ﷺ نے اس ذمہ داری کو اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان فرمایا کہ "حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللّٰہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سی عورت بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ وہ عورت کہ جب خاوند اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے ۔ اور جب اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور مال میں اس کی مخالفت نہ کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔‘‘ حدیث # 3233، سنن نسائی) لیکن اس پر بھی افسوس کہ آج میڈیا عورتوں کے بچوں کو چھوڑ کر آشنا کے ساتھ فرار ہونے، حتی کہ آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرنے کی خبروں سے بھرا پڑا ہے ۔ اور بالکل اسی طرح مردوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ اس پر اپنے گھر والوں (بیوی، بچوں اور باقی Dependents) کو سنبھالنے کی جو زمہ داری (کفالت کرنے و جان، مال، آبرو اور عزت نفس کی حفاظت کرنے) اللّٰہ کی طرف سے عائد کی گئی تھی اسے کیسے نبھایا؟ لیکن اس پر بھی صرف اور صرف افسوس ہے کہ آج میڈیا مردوں کی طرف سے ان کی بیویوں اور ماؤں بہنوں کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنانے، حتی کہ تنہا یا دیگر گھر والوں کے ساتھ مل کر درندگی آمیز قتل کرنے کی ویڈیوز و خبروں سے سرخ ہے ۔ جبکہ روز محشر اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے اس پوچھ گچھ میں سرخرو ہونے کا واحد حل صرف اور صرف یہ ہے کہ ماتحت (ملازم و نوکر) اس کام کی تکمیل یا مال کی حفاظت جو اس کے ذمہ ہے کو مکمل خلوصِ نیت سے سر انجام دے کہ اگر ڈنڈی مار کر دنیا میں مالک کی نظروں سے بچ بھی گیا تو اللّٰہ تو دیکھنے والا اور اس مطابق پورا پورا بدلہ لینے و دینے والا ہے ہی ۔ اسی طرح عورت کے پاس بھی واحد حل یہی ہے کہ شوہر، اس کے بچوں اور گھر و گھر والوں کی ضروریات، آرام و سکون اور خوشی و اطمینان کا پورے خلوص نیت سے احساس اور خیال رکھے ۔ اور بالکل اسی طرح مرد کے پاس بھی حل صرف یہ ہی ہے کہ اس پر اس کے گھر والوں (بیوی، بچوں اور باقی Dependents) کو سنبھالنے کی جو زمہ داری (کفالت کرنے و جان، مال، آبرو اور عزت نفس کی حفاظت کرنے) اللّٰہ کی طرف سے عائد ہے اسے خلوصِ نیت سے نبھائے ۔ لیکن انتہائی بد نصیبی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردوں میں اکثر کو اپنے گھر والوں کی کفالت کرنے اور مال و آبرو کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کا تو کسی حد تک ادراک ہے ۔۔۔ لیکن ان کی جان و عزت نفس کی حفاظت بارے رتی بھر بھی احساس یا خیال تک نہیں ۔ جس کے نتیجے میں آج گھریلو تشدد (جسمانی و ذہنی) ہمارے معاشرے میں عام ہے یہاں تک کہ اس کے سبب آئے روز حادثات کا رونما ہونا ایک معمول بن چکا ہے ۔ سوشل میڈیا (فیس بک و انسٹا گرام) ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے ۔۔۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ حالانکہ یہ کامن سینس کی بات ہے کہ "عزت نفس" کا محافظ ہونے کے باوجود ایک مرد کا اپنے گھر والوں (بیوی، بچوں اور باقی Dependents جو اس کی بات سننے کو مجبور ہیں) کو ہر وقت و بے جا تنقید کا نشانہ بنانا بھی سراسر ان کی تذلیل اور ذہنی تشدد ہے ۔۔۔ لیکن افسوس کہ آج گھروں میں یہ عام سی بات ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایک مرد اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لئے صرف اور صرف تشدد (ذہنی و جسمانی) کرنے کا قائل و عادی ہے تو یقین کریں کہ وہ ایک خطرناک "ذہنی مریض" ہے ۔۔۔ اور اس کو کسی حادثے سے بچنے کے لئے فوری طور پر کسی ڈاکٹر سے رجوع کر لینا چاہئے ۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔۔۔!
واثق پیرزادہ رحیم یار خان 03009675055 3130340024055 [email protected] https://www.facebook.com/share/1747AD2Tdy/ https://hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=521020 |
|