موجودہ حالات ۔۔۔ ذمہ دار کون

بدقسمتی سے ہم اس وقت آزمائش کے ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں کوئی پورا اترنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ ہر ایک الزام تراشی میں مصروف ہے یا ذاتی مستقبل کی تعمیر میں۔ دوسری طرف کچھ دوسری قوتیں ہیں جو اپنے خود ساختہ مذہبی نظریات کی ترویج بزور شمشیر کو جہاد قرار دے رہی ہیں۔ ایک اور طبقہ فکر بھی نمودار ہو رہا جو نظریہ پاکستان کو ہی غلط ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے بلکہ اسے تو دانشمندی کی نشانی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ وہ سارے اندرونی عناصر ہیں جو جانتے بوجھتے اس ملک کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں ،جانتے بوجھتے ہوئے اس لیے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے ۔ کچھ کو بیرونی مدد اور تعاون حاصل ہے لیکن آلہ کار خود اپنے ہی لوگ ہیں اور کچھ تو خود ہی منصوبہ ساز اور خود ہی آلہ کار ،اور ایک گروہ وہ بھی ہے جو عملاََ اس ملک کی ثقافت کے خلاف محاذ آرا ہے ۔ ان کے لباس اور ان کے انداز اپنی ہی ثقافت سے شدید طور پر متصادم ہیں۔ یہ تو ایک اجمالی سا، انتہائی مختصر سا جائزہ تھا اُن حالات کا جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں مجرم الگ ہیں، طریقہ واردات مختلف ، لیکن نشانہ ایک ہی ہے اور وہ ہے پاکستان ۔ اگر چہ اِن میں سے ہر ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے لیکن یہ سب برابر کے شریک جرم ہیں ۔ خود کش حملوں نے اس ملک کے امن کو جس طرح تہس نہس کیا ہے انسانی جان کو کیڑے مکوڑے سے بھی ارزاں کر دیا ہے وہ اگر چہ ان چند ہزار طالبان کے بس کی بات نہیں لیکن اُنہیں بیرونی امداد جس حساب سے مل رہی ہے اُسی حساب سے وہ انسانی قتل عام میں ملوث ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جس جنگ میں ہاتھ ڈالا ہے اُس نے خود ہمارے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے لیکن عوام کے باربار کے مطالبے کے باوجود کوئی بھی صاحب اختیار اس سے ہاتھ کھینچنے کو تیار نہیں اور نہ ہی عوام الناس کو وہ منطق سمجھائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہر تنقید بھی برداشت کی جا رہی ہے اور ہر نقصان بھی سہا جا رہا ہے لیکن حکمت عملی میں تبدیلی نہ برداشت کی جا رہی ہے نہ پیدا کی جا رہی ہے نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے ہم اپنی پالیسی سے چمٹے رہیں گے۔ ہاں وہ منصوبے جو ملک کی ترقی میں کو ئی کر دار ادا کر سکتے ہیں بڑی آسانی سے آتی جاتی حکومتوں کی نظر ہو جاتے ہیں اور ہمارے یہی رویے ہیں جس نے ہمیں بین الاقوامی سطح پر ایک سافٹ ٹارگٹ بنا دیا ہے۔ طالبان، حکومت اور عوام ایک ہی کردار ادا کر رہے ہیں بس طریقہ واردات مختلف ہے۔ عوام کا کردار بھی کچھ زیادہ قابل قدر نہیں، یہی عوام سرکاری اہل کار ہیں، اساتذہ ہیں ڈاکٹر اور انجنیئر ہیں دکاندار اور پھل فروش اور سبزی فروش ہیں اور فکر ہر کس بقدر ہمت اوست کے مصداق ہر کوئی اپنا اپنا دیا جلا رہا ہے ، مالی اور اخلاقی ہر لحاظ سے ،او رحیرت اس بات پر ہے کہ مالی کرپشن تو پھر بھی کسی کو نظر آجاتی ہے لیکن ہمارے رویے جو نقصان ملک کو پہنچا رہے ہیں اسکی کسی کو پرواہ نہیں حالانکہ اگر یہی اخلاقی برائیاں ختم ہو جائیں تو باقی سب بُرائیاں اور بد عتیں خود بخود ختم ہو جائیں گی اِنہی برائیوں کی وجہ سے معاشرے میں کوئی محفوظ نہیں اور یہ سب نتیجہ ہے مذہب سے دوری کا۔ اسی مذہب سے شدھ بدھ نہ رکھنے والے لوگوں کے سامنے جب طالبان جیسے طبقے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں تو وہ اُسی کو عین اسلام سمجھ کر ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہی مذہب سے دور لوگ شدت پسندی کو ہوا دینے کا باعث بنتے ہیں معاف کیجئے گا لیکن ننگے ملبوسات کی نمائش کو جس طرح ہر چینل پر دکھایا جا رہا ہے اور تعریفوں کے جو ڈونگر ے بر سا دئیے جاتے ہیں وہ کچھ کو تو اسی روئیے کی طرف راغب کر دیتے ہیں اور کچھ کو اتنا خلاف کہ وہ شدت پسندی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یوں سب کا جرم شدید ہے چاہے اس کا احساس کیا جائے یا نہ کیا جائے۔

یہ سب کچھ تو ایک طرف، جب ملک کے نظریے کو ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس خیال کو سرعام پیش کیا جائے تو ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ خود ہم سب سے بڑے مجرم ہیں ۔ اگر اِن لوگوں کو کوئی دشمن مدد دے بھی رہا ہے تو ہمارا میڈیا ان کے خیالات عام کرنے میں کیوں کردار ادا کررہا ہے۔ اور حیرت ہے ہم اسلامی تنظیموں پر شدت پسندی کی چھاپ لگا کر انہیں تو بڑی سہولت سے بین کر دیتے ہیں لیکن اس طرح کے گروہوں کو خوب کُھل کھیلنے دے رہے ہیں بلکہ دو قومی نظریے کو متنازعہ بنانے کی عملاََ کوشش کی جا رہی ہے۔ امن کے لیے اس کی قطعاََ ضرورت نہیں کہ قبائل اپنی پہچان ختم کردیں ،قومیں اپنے نظریئے بھلا دیں اور ملتیں اپنے مذاہب سے روگردانی اختیار کریں اسلام کا یہی اصول ہی یاد رکھ لینا کافی ہے کہ لَکُم ’ دِینُکُم وَ لی ِ دِین اور بس خود بخود امن قائم ہو جائے گا۔

قومی ذمہ داری اور قومی یکجہتی کا احساس اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت ہے ہم اس سے آنکھیں چرا کر اپنا تمام تر زور خطابت اور زور بازو ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر صرف کر رہے ہیں ملک میں مسائل کا ایک انبار لگا ہوا ہے لیکن نئی نئی بحثیں چھیڑ کر ’’نئے اور اچھوتے‘‘ موضوعات کی تلاش میں قومی یکجہتی کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے ۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک اپنی غلطی تسلیم کرکے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کر ے گا یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ ہم مسائل سے نکل کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552574 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.