مبہم رپورٹنگ نے بی بی سی کا دامن داغدارکردیا

بی بی سی نے”خفیہ پاکستان “کے نام سے اپنی ایک دستاویزی فلم دکھائی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان طالبان کو تربیت فراہم کرکے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ رپورٹ میں ایک مبینہ خودکش بمبار کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس آئی نے اسے بھرتی کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے مغربی اتحادی فوجیوں کے خلاف مہم تیز کرنے کے لیے اسے خود کش بمبار بننے کی تربیت دی گئی اور اس مشن کی تیاری پاکستان کے ایک کیمپ میں آئی ایس آئی کے افسر کی نگرانی میں ہوئی۔

اس نوجوان کے اس الزام کو سچا بنانے کے لئے رپورٹ کے خالق خود ہی یہ الفاظ نتھی کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کی کہانی بھی امریکی انٹیلی جنس کے اس موقف کی تائید کرتی ہے جس کے مطابق پاکستان افغانستان پر اپنا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے مقصد سے در پردہ طالبان کی حمایت اور اسے ہتھیار مہیا کرتا رہا ہے۔ اس بات پر شک دو ہزار دو میں ہی پیدا ہوا تھا جب طالبان نے سرحد پار پاکستان میں واقع اپنے اڈوں سے حملے شروع کیے تھے۔ لیکن دو ہزار چھ میں جب صوبہ ہلمند میں تعینات برطانوی فوجیوں پر سخت حملے بڑھنے لگے تو یہ بات اور واضح ہونے لگی۔وہ مزید کہتا ہے کہ امریکیوں کی نظر میں اہم موڑ اس وقت آیا جب نومبر دو ہزار آٹھ میں ممبئی کو حملہ آوروں نے نشانہ بنایا۔ اگرچہ پاکستان نے حملہ آوروں کی کسی بھی طرح کی مدد سے انکار کیا لیکن امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا کہنا ہے کہ اسے جو شواہد ہاتھ لگے اس کے مطابق ان کی تربیت میں بھی آئی ایس آئی بلا واسطہ ہاتھ تھا۔رپورٹ میں سی آئی اے کے افسر بروس رائیڈل کا موقف بھی پیش کیا گیا جس نے اسی الزام کا اعادہ کرتے ہوئے کہ ہماری خود کی انٹیلی جنس غیر مبہم تھی، افغانستان میں ہم نے دیکھا کہ شورش کو پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے بادل ناخواستہ ہی نہیں بلکہ فعال طور پر حمایت مل رہی تھی۔

اس رپورٹ میں چند طالبان کمانڈرز کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک طالبان کمانڈرملاقاسم کا کہنا تھا ایک جنگجو کے لیے دو چیزیں اہم ہوتی ہیں۔ سپلائی اور چھپنے کی جگہ۔ پاکستان دونوں میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کمانڈر نجیب احمدنے بتایا کہ چونکہ اوباما نے افغانستان میں مزید فوجی تعینات کر دیے اور آپریشن میں اضافہ کر دیا اس لیے پاکستان نے بھی ہماری مدد میں اضافہ کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کی ملیشیاءکو پانچ سو بارودی سرنگ، بیس ریموٹ کنٹرول، بیس راکٹ، دو سے تین ہزار گرینیڈ اور اور اے کے 47 مشین گن وغیر مہیا کی گئی تھیں۔ ایک اورکمانڈرملاعزیزاللہ کے مطابق طالبان کو تربیت فراہم کرنے والے ماہرین یاتوآئی ایس آئی کے اہلکارہیں یاپھران کاایجنسی سے قریبی تعلق ہے۔

بی بی سی کی اس فلم کا نام خفیہ پاکستان تھا مگر اس کا اصل مقصد چند خفیہ اہداف کا حصول تھا اس لئے یہ رپورٹ حقائق یا دلائل پر مبنی ہونے کی بجائے صرف بیان بازی پر مبنی ہے ۔ اس میں اطراف کا موقف پیش کرنے کی بجائے صرف امریکہ اور ان طالبان یا شاید طالبان کا لبادہ اوڑھے افراد کے بیان پیش کئے گئے ہیں ۔رپورٹ میں کابل کی قید میں خود کش حملہ آور کی زبان بھی پاکستان کے خلاف کھلی ۔ مگر ان تمام الزامات اور دعوﺅں کے لئے پاکستان کے کسی سرکاری یا غیر سرکاری شخصیت کا ذرا سا بھی موقف نہیں پیش کیا گیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بی بی سی کی یہ رپورٹ یکسر پراپیگنڈہ میٹریل تھا جس کا مقصد پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگا کر اتحادی ممالک کو اس کے خلاف بدظن کرنا بھی تھا۔ بہرحال دوسرے روز پاکستان کی طرف سے اس فلم میں لگائے جانے والے الزامات کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ایسے یک طرفہ اور بے بنیاد پراپیگنڈے پر مبنی فلم دکھانے پر بی بی سی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی اور پاکستانی اعلیٰ فوجی قیادت نے اس بارے میں اپنا موقف کھل کر امریکی وزیرخارجہ کے سامنے رکھ دیا تھا اور انہیں بتادیا تھا کہ پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کے الزامات سے کسی کا بھلا نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستانی ایجنسی ان عناصر کی مدد کر رہی ہیں جو انہی کے لوگوں کو مار رہے ہیں۔اس جنگ میں آئی ایس آئی کہ ساڑھے تین سو اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ ایسے میں کوئی تصور کر سکتا ہے کہ یہ ایجنسی ان لوگوں کا ساتھ دے گی۔ بعض خودکش حملوں کی مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے حملوں میں ایک ہی قسم کے لوگ شامل ہیں۔جنرل اطہر عباس نے کہا کہ یہ روّیہ افغانستان میں قیام امن اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن رہا ہے۔اس طرح کے الزامات یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں مصروف فریقوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر سکتے ہیں جس کا فائدہ شدت پسندوں کے علاوہ کسی کو نہیں ہو گا۔پاکستانی فوجی ترجمان نے کہا کہ افعانستان میں قیام امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان اپنے طریقے سے کام کر رہا ہے۔ہماری پالیسی ہمارے اپنے وسائل اور مسائل کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے جو شائد انہیں زیادہ پسند نہیں آ رہی کیونکہ ان کی اپنی ترجیحات اور وقت کی کمی کے مسائل ہیں۔ اس لیے ہماری درخواست یہ ہے کہ ہم پر تنقید کے بجائے وہ ہمارے مسائل اور وسائل سامنے رکھ کر ہمارا نکتہ نظر اور پالیسی سمجھنے کی کوشش کریں۔ جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان اور افغان تنازعے کے دیگر فریقوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششوں میں افغان انٹیلی جنس کے ان سابق افسران کا اہم کردار ہے جو کہ افغان انٹیلی جنس سے نکالے گئے ہیں۔ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ این ڈی ایس (افغان انٹیلی جنس) کے ان سابق افسران کی باتیں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں اور انہیں روکا کیوں نہیں جا رہا کیونکہ پاکستان اور دیگر اتحادیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں ان لوگوں کا بڑا کردار ہے۔

پاک امریکہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا میں ایسی من گھڑت رپورٹ کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان حالات کو نو پوائنٹ آف ریٹرن تک لے جانا ہوسکتا ہے۔ اس کی منظر عام پر آنے کی ٹائمنگ سے اندازہ ہوجانا چاہئے کہ اس کے درپردہ کتنے منظم عناصر ہیں۔ جیسا کہ پاک فوج کے ترجمان نے نشاندہی کی ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار پاکستان، افغانستان اور اتحادی افواج کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے اس موقف میں اس لئے سچائی ہے کہ ان اہلکاروں کی تربیت بھارت کی جانب سے کی گئی اور بھارت ہی انہیں اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کررہا ہے۔ جس طرح اس رپورٹ میں طالبان کمانڈرز پاکستان کے خلاف بیان دیتے نظر آتے ہیں، صرف اسی سے اس رپورٹ کے غیرحقیقی ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستان واقعی ان کی مدد کررہا ہوتا تو طالبان کمانڈرز کبھی اس کا اقرار نہ کرتے اور اس رپورٹ کا خالق اگر واقعی صحافتی اصولوں کی پاسداری کرتا تو پاکستان کا موقف بھی اپنی رپورٹ میں ضرور شامل کرتا۔ بہرحال بی بی سی جیسے معتبرصحافتی ادارے کو ایسی مبہم رپورٹوں سے پنے معیار کو داغ دار نہیں ہونے دینا چاہئے تھا۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.