کیوں بڑھ رہے ہیں جرائم؟

ہندوستان میں جرائم اگر 2009 کے مقابلے میں 2010 میں پانچ فیصد بڑھ گئے تو اس کا ایک سبب خود نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے تازہ اعداد و شمار میں ہی پوشیدہ ہے۔ غور کیجئے۔ جنسی استحصال کے معاملات میں پولیس نے 94.5 فیصد ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی مگر ان میں سے صرف 26.6 فیصد کو ہی وہ سزا دلوا سکی۔ جہیز قتل کے معاملات میں سزا دلوانے کی شرح 33.6 رہا۔دراصل جرم کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جس میں 39 فیصد سے زیادہ ملزموں کو سزا دلانے میں فرد جرم فریق کو کامیابی ملی ہوجبکہ ہماری استغاثہ نظام یا تو کام کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے یا پھر وہ اتنی کارگرنہیں ہے کہ مقدمات کو ان کی منطقی نتیجہ تک لے جانے میں کامیاب رہے۔ اگر مجرمانہ انصاف کے نظام اتنی لچر ہو ، تو مجرموں کی بے خوفی پر حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے؟اعداد و شماربتاتے ہیں کہ یوں تو 2010 میں سارے ملک میں جرائم بڑھے لیکن خاص طور پر شہروں میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرم میں شدید اضافہ ہوا لیکن یہ اعداد و شمار اس معنی میںخوفناک سمجھے جا سکتے ہیں کہ ملک کے جن علاقوں ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ، جہاں خواتین کی سماجی حیثیت بہت کمزور اور عوامی بیداری کم ہے اور جہاں متاثرین کو مدد دینے کے لئے خواتین کی تنظیموں کا فقدان ہے ، وہاں بہت سے سنگین جرم بھی پولیس کے دستاویزات میں درج نہیں ہو پاتے۔ اس لیے این سی آرکی رپورٹ بھی ملک میں جرائم کی پوری تصویر نہیںپیش کرسکتی۔بہر حال تازہ رپورٹ سے دو اور انتہائی تشویشناک حقائق سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ سال 1لاکھ33ہزار9سو38 افراد کی جان سڑک حادثوں میں چلی گئی۔ یہ اپنے ملک میں سڑکوں اور ٹریفک نظام کی دردناک حالت کی عکاسی کرتی جبکہ دوسری جانب1لاکھ34ہزار5سو 99افرادنے خود کشی کر لی جو سماج میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، علیحدگی اور رشتوں کے انتشار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سارے وہ پہلو ہیں جنھیں کوئی بے حس معاشرہ ہی نظر انداز کر سکتا ہے۔ایسے میں ضروری ہوجاتاہے کہ اس کے عوامل کو تلاش کرکے خاطر خواہ تدارک کیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، علیحدگی اور رشتوںکی ٹوٹ پھوٹ آئی کہاں سے؟دراصل اس کے پیچھے مقصدحیات سے دوری کارفرما ہے۔ا نسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت رکھا ہے‘ اس لئے انسان کو نہ تو رزق کے معاملے میں زیادہ پریشان ہونا چاہئے اور نہ ہی دنیا کے حصول کیلئے اپنے آپ کو کھپا دینا چاہئے بلکہ اللہ تعالٰی نے اس کے رزق کا ذمہ خود لیا ہے جبکہ انسان کو جرائم سے پاک دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پابند کیا ہے۔اس لئے اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو شعور بخشا ہے اور اس کو فطرت اسلام پر پیدا فرمایا تاکہ یہ اپنی گمراہی کو بے علمی کے عذر سے پیش نہ کر سکے۔اس لئے اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو مختلف طریقوں سے یہ باور کروا دیا ہے کہ کوئی خالق ومالک اور کوئی ایسی ہستی ہے جو سارا نظام چلا رہی ہے اور اس دنیا کی ہر چیز کو کنٹرول کئے ہوئے ہے۔اس لئے ہر مسلمان کو جن چیزوں معرفت ضروری ہے ان میں سب سے پہلے اللہ تعالی کی ذا ت عالی کی معرفت ہے۔ اللہ تعالٰی نے زمین وآسمان ،سورج،چاند اور ستاروں،شجر حجر اور پہاڑوں سے اور دنیا کے نظام سے اپنی معرفت کروائی ہے اور حتی کہ فرمان باری تعالی کے مطابق خود انسان کی اپنی جا ن میں بہت ساری نشانیاں موجود ہیں۔اللہ تعالی کے اسماءحسنی میں غور و خوص اور اس کی دعوت معرفت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہاں چند باتیں ترتیب وار سمجھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے اسماءحسنی اور صفات کا علم مطلق طور پر سب سے اعلٰی اور اشرف علم ہے کیونکہ علم کا شرف معلوم یعنی جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے اس کے شرف سے ثابت ہوتا ہے اور اس علم میں جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے اسماءوصفات کا علم ہے ، تو اس علم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی فہم حاصل کرنا بندے کیلئے سب سے اعلی اور اشرف کام ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ہی واضح طور پر بیان فرما دیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے بیان کرنے کے اہتمام کی بنا ءپر ہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا جس طرح کہ بعض دوسرے احکام میں اختلاف کیا ہے۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کی معرفت اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی محبت اختیار کی جائے اوردل میں اسی کا خوف رکھا جائے اور اسی سے امیدیں وابستہ کی جائے اور اسی اللہ تعالی کیلئے ہی اپنے اعمال کی خالص کیا جائے جو کہ سعادت اور عین عبادت ہے ، اور اللہ تعالی کی معرفت اس وقت ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اللہ تعالی کے اسماءحسنی کی معرفت حاصل ہو اوران کے معانی کوسمجھا جائے۔تیسرے یہ کہ اللہ تعالی کی اسماءحسنی ساتھ معرفت ایمان میں زیادتی کا باعث ہے ، شیخ عبدالرحمان بن سعدی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : اللہ تعالی کے اسماءحسنی پر ایمان لانا اور ان کی معرفت توحید کی تینوں اقسام ہیں : توحید ربوبیت اور توحید الوہیت اور توحید اسماءوصفات کومتضمن ہے ، اور یہ اقسام ایمان کی روح اور خوشی ہے ، اور روح کا معنی دل کوغمی سے خوشی اور راحت ہے، اور یہ ایمان کی اصل اور اس کی غایت ہے ،لہذا بندے اللہ تعالی کے اسماءحسنی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ اور یقین قوی ہوگا۔ التوضیح والبیان لشجر الایمان للسعدی ص 41پر اس کی وضاحت موجود ہے۔چوتھے یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے مخلوق پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اسے پہچانیں اور اس کی عبادت کریں‘ یہی وہ چیز ہے جو کہ ان سے انتہاءمطلوب ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ رسولوں کی دعوت کا لب لباب اور اس کی کنجی معبود برحق کی معرفت وپہچان اس کے اسماءوصفات اور افعال کے ساتھ ہے ، اوراسی معرفت پر رسالت کی شروع سے لیکر آخر تک بنیاد اور دارو مدار ہے ۔توبندے کااللہ تعالی کی معرفت میں مشغول ہونا اس کام میں مشغول ہونا ہے جس کیلئے اللہ تعالی نے اسے پیدا فرما یا ہے ، اور اسے ترک و ضائع کرنا ایساکام ہے جس کے لئے بندہ پیدا کیا گیا ہے اسے نہ کرنا ہے ، اورایمان کا معنی یہ نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیا جائے اوراس کی معرفت اور علم حاصل نہ کیا جائے، اس لئے کہ حقیقت ایمان یہ ہے کہ بندہ اپنے اس رب کوجانے اور پہچانے اور اس کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، اور اسے اللہ تعالی کی معرفت اسماءوصفات کے ساتھ حاصل کرنے میں کوشش کرنی چاہئے ، لہذااسے جتنی اللہ تعالی کی معرفت ہوگی اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔پانچویں یہ کہ اللہ تعالی کے اسماءحسنی کا علم حاصل کرنا ہر معلوم کے ساتھ علم کا اصل ہے ، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ بیشک اللہ تعالی کے اسماءحسنی کا علم ہرمعلوم چیز کے علم کی اساس اوربنیاد ہے ، لہذا یہ معلومات اس کے سوا ہے یا تو اللہ تعالی کی مخلوق ہوگی یا پھر اس کا امر ، اوریا اس چیز کا علم ہوگا جس کی اللہ تعالی نے تکوین کی ہے ،اور یا اس کا علم ہوگا جواس نے مشروع کیا ہے ، اور خلق اور امر کےعلم کا مصدر اللہ تعالی کے اسماءحسنی ہیں ، اوریہ دونوں ( خلق و امر )اسماءکے ساتھ ایسے مرتبط ہے جس طرح کہ تقاضا کی گئی چیز کا ارتباط تقاضا کرنے والے کے ساتھ ہو، اوراسماءحسنی کا شمار ہرمعلوم کے جاننے کا اصل ہے ، اس لئے کہ معلومات اس کا تقاضا ہیں اور ان سے مرتبط ہیں....

دوسرے دین کی معرفت بھی ضروری ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو رہنمائی فراہم کی جاتی ہے اس کو وحی کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے انسان کو اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود وقیود کا پابند کیاجاتا ہے تاکہ اس کی زندگی میں افراط وتفرط نہ آئے اور معتدل رویے سے زندگی بسر کرے۔لہذا انسان کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس وحی کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرے اسی پہچان کا نام دین کی معرفت ہے۔تیسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل کی جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ ان کو پیغمبر مان کر ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی تعلیمات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کا پابند کیا جائے اور اس چیز کا عقیدہ رکھا جائے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
Sara Ilyasi
About the Author: Sara Ilyasi Read More Articles by Sara Ilyasi: 4 Articles with 6576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.