زندگی اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے....
اس کو اگر اللہ کے احکام کے مطابق گزارا جائے تو یہ انسانیت کی معراج ہے....
فکر کی کام یابی ہے.... مگر جب اس زندگی کو اللہ کی خوش نودی کے بجائے
نافرمانی میں گزارا جائے .... تو یہ زندگی کے ساتھ ظلم ہے اور نا انصافی....
اللہ کی فرماں برداری کا تقاضا ہے کہ آمادہ احکام الٰہی ہوا جائے.... جب!
رب کا حکم آجائے کہ جان دے دو!.... تو! جان دے دینی چاہیے....مال کی قربانی
مانگی جائے تو اپنا مال راہِ خدا میں نذر کر دیا جائے....
ایک یادگار دن ہے ”عیدالاضحی“.... جس دن قوم کی تقدیر چمک اٹھی.... ایثار
کے دیپ روشن ہو گئے.... اللہ کے ایک عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے اللہ کے حکم پر قربانی دی.... حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی....
ان کی جان کی قربانی! اور اپنی سب سے عزیز متاع کی قربانی.... اس درس نے
انسانیت کو جذبہ ایثار دیا!.... اس طرح فکروں کو بےدار کیا.... زندگی کا
قرینہ دیا.... جاں نثاری کا درس دیا.... اب بھی اس درس پر عمل کی ضرورت ہے....
کہ اگر وقت آجائے تو اپنی جان نچھاور کر دو!.... اسلام کے لیے، قرآن کے لیے،
ناموسِ رسالت کے لیے، دینِ حق کی شان کے لیے، انسانیت کی بقا کے لیے،خود
احتسابی کریں! کہ.... ہم کیا ایساجذبہ رکھتے ہیں.... یا ہمارے جذبات مردہ
ہوگئے.... ہم اتنی بھی قربانی نہیں دے سکتے، کہ.... سچ بولیں، حق کہیں،
اسلام کی راہ چلیں، مغربی تہذیب (Western Civilization) سے بچیں اور....
اللہ کے احکام کی پاس داری کریں، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے
وفاداری کریں.... رسول کونین علیہ الصلاة والسلام کے ارشادات کی تعمیل کریں....
تب ہی ہم سچے مسلمان بنیں گے.... تب ہی دل کی کلیاں کھلیں گی، اور مغرب کی
چکا چوند نگاہوں کا نور نہیں چھین سکے گی، اس لیے کہ:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
لیکن!حالات ایسے ہیں کہ.... مسلمان، مسلمان کی جان کے دشمن.... عزت اور آن
بان کے دشمن.... علاقائیت غالب.... خود غرضی غالب.... کہیں لسانی اختلاف....
کہیں یہ جذبہ کہ ہم ہی ترقی کریں اور دوسرے ہمارے محتاج رہیں.... کیا یہ
طرز عمل صحیح ہے؟.... یہ منفی طرز عمل ہے.... کہیں ایسا ہے کہ! غریب دولت
مندنہ بنے.... اور اجارہ داری صرف سرمایہ دار کی رہے....سرمایہ ایک ہی ہاتھ
میں جمع رہے.... مزدور مزدور رہے اور سرمایہ دار، سرمایہ دار.... یہ ایثار
سے دوری کا نتیجہ ہے.... اور Capitalism کا شاخسانہ....آج جب کہ یورپ میں
سرمایہ داریت کے خلاف عوامی تحریک چھڑ چکی ہے،اور ہم اسی اجنبی تھنک کو
معاشرے میں رواج دے رہے ہیں....کیا یہ اپنے ورثے سے دوری نہیں؟.... یہ
فرسودہ نظام جو ہمارے معاشرے میں اپنی جڑ پکڑ چکا ہے.... اور فکرِ تاریک کا
فسانہ بن چکا ہے.... اب بھی ایثار کے جذبات پیدا کر لیجیے.... تبھی ہم اپنے
معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہہ سکیں گے.... اور ہمارے تمدن کو ”اسلامی تمدن“
کہہ سکیں گے....
افسوس کہ ہوا و ہوس نے ہمیں اپنے ورثے سے دور کر دیا.... اور قابلِ نفرت
عمل کو ہمارے لیے عزیز کر دیا.... ہمارا سماج پس ماندہ، ہماری معاشی حالت
ابتر، تعلیمی کیفیت تنزل پذیر؛ ایسا کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم میں جذبہ
ایثار نہیں.... جبھی کوئی ہمارا پُرسانِ حال نہیں.... ”قربانی“ ہماری
بیداری کی علامت ہے،.... ہمارے تشخص کی علامت ہے.... ایثار ہماری دعوت کی
کامیابی کا لازمہ ہے....اس سے جہاں اسلامی احکام کی تعمیل مقصود ہے وہیں
اتحاد امت مسلمہ کا پیغام بھی مستور ہے.... ضرورت اس آفاقی درس (Universal
Docile)کو اپنانے اور اسے پھیلانے کی ہے، تب آگ بھی ہمارے لیے گل زار ہو
جائے گی.... خزاں بہار میں تبدیل ہوگی.... زحمتوں کی کیفیت دور ہو گی....
رحمتوں کی بادِ صبا چلے گی.... اور ظلمت کے بادل چھٹیں گے:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا |