سیدصفدر حسین بخاریؒ فیلڈ مارشل ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جس کا خواب بھی ہر فوجی افسر نہیں دیکھ پاتا ۔ پاکستان آرمی کی تاریخ میں یہ اعزاز آج تک صرف دو فوجی افسران ہی حاصل کر سکے ہیں ایک محمد ایوب خان (1959) اور دوسرے سید عاصم منیر (2025)۔ ہر ملک کی ایک فوج ہوتی ہے جو اس ملک کی سرحدوں کی پاسبان اور عام شہریوں کی آزاد زندگی کی ضامن ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک روحانی فوج بھی قائم ہے جس میں اللہ پاک کے سپاہی ہر دم اللہ پاک کے احکامات کے نفاذ کو یقینی بنانے میں مصروف ِ عمل رہتے ہیں ۔ اللہ پاک کی اس آرمی میں بھی عہدے ہوتے ہیں اور کارکن سے لے کر افسران تک سب اپنے عہدے کے حساب سے زمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ سید صفدرحسین بخاریؒ المعروف قلندر پاک کاکیاں والی سرکار اپنے عہد میں اللہ پاک کی اس فوج کے فیلڈ مارشل تھے۔ جس طرح یہ اعزاز منفرد ہے اور اسے پانے کے لیے کچھ خاص کرنا پڑتا ہے اسی طرح قلندر پاک ؒ نے اپنی حیات میں انسانیت کی وہ خدمت کی ہے جس کی مثال خام ہی ملتی ہے ۔ آج ان کے جانے کے 20 برس کے بعد بھی وہ فلاح لوگوں کو اسی طرح حاصل ہے۔ قلندر پاک ؒ کا پورا نام مخدوم سید صفدر حسین بخاریؒ ہے۔ آپ ؒ سادات ِ حسینی سے ہیں۔ آپ ؒ کے دادا حضرت سید جملے شاہ بخاری ؒ اپنے دور کے جید ولی ِ کامل تھے۔ آپؒ کی بہت سی کرامات زبان ِ زد ِ عام رہیں۔ قلندر پاکؒ کی تربیت ان کے ماموں سید غلام شبیر شاہ بخاریؒ نے فرمائی۔ قلندر پاکؒ کا تعلق ڈھڈی تھل سے ہے جسکی تحصیل پنڈدادن خان اور ضلع جہلم ہے۔ قلندر پاکؒ نے اپنے گاؤں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔ کچی سڑکیں پختہ کرائیں ، غریب لوگوں کی تعلیم کے لیے اسکول تعمیر کرائے اور صحت کے حوالے سے ڈسپنسریو ں کا قیام عمل میں لائے۔ لیکن قلندر پاکؒ کا اصل کارنامہ جو انھیں ہمیشہ کے لیے زندہ کر گیا وہ سورہ رحمن کا فیض ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اللہ پاک نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ بات خود اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمائی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ وہ کونسی عبادت ہے جس سے اللہ پاک کی پہچان اور قرب حاصل ہوتا ہے۔ قلندر پاکؒ اس راز کو پا گئے اور پھر اللہ کی ایسی عبادت کی اب تک کے تمام صوفیاء میں ایک منفرد مقام پا گئے۔ وہ عبادت محبت اور خلق خدا کی خدمت ہے۔ قلندر پاکؒ سر سے پاؤں تک سراپا محبت بن گئے۔ جس طرح اللہ پاک اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے بالخصوص گناہ گاروں سے تاکہ وہ گناہوں سے کنارہ کش ہوکر اپنی ہمیشہ کی زندگی کو سنوار لیں اسی طرح قلندر پاکؒ بھی گناہ گاروں پر خصوصی توجہ دیتے تھے اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنا آستانہ ہی لاہور کے بازارِحسن میں رکھا اور اس جگہ جہاں کو ئی شریف آدمی دن میں بھی آنے کو تیار نہ ہو وہاں پیشہ ور خواتین کو نہ صرف اپنے کردار سے تبلیغ کی بلکہ اپنی محبت اور توجہ سے 300 سے زائد خواتین کا نکاح کروایا جو آج ایک باعزت زندگی گزار رہی ہیں اور اس غلاظت بھری زندگی سے پیچھا چھڑا چکی ہیں۔ قلندر پاکؒ کو بازار حسن کے حوالے سے بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ لوگ آپ ؒ پر آوازیں کستے آپؒ کو برا بھلا کہتے حتی کہ آپ ؒ کا نام ہی " پیر کاکی تاڑ " رکھ دیا لیکن آپؒ ہمیشہ مسکراتے رہتے ۔ کبھی کسی کی تنقید کا جواب نہیں دیا بلکہ ان سے بھی پیار کرتے تھے۔ اس دنیا میں بے شمار اللہ کے ولی آئے اور آگے بھی آتے رہیں گے ۔ ان ولیوں کی بیش بہا خدمات ہیں ۔ ان ولیوں نے اپنی ریاضت ، عبادت اور خدمت سے بہت مقامات حاصل کیے۔ لیکن قلندر پاکؒ کو جو چیز ان سب سے منفرد بناتی ہے وہ ہے ہم جیسے نام کے مسلمانوں کی اصلاح۔ قلندر پاکؒ نے ہم نام کے مومنوں کو اللہ کی قربت، فرعونوں کو خدا کا خوف اور اللہ سے محبت کا سبق دیا۔ اس پر فتن دور میں کہ جب ہر جانب نفس کی دوڑ ہے، انسانیت سسک رہی ہے، بے چینی عام ہے، ظلم کا بازار گرم ہے، گھر اجڑ رہے ہیں، معاشرہ تباہی کا شکار ہے اور کوئی جائے پناہ کسی کو دکھائی نہیں دیتی تو اس وقت قلندر پاکؒ کا وجود ایک رحمتِ خداوندی کی صورت نمودار ہوا اور سسکتی انسانیت کو جیسے ایک روشنی دکھائی دی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کا یہ پہلو ایسا منفرد تھا کہ اس میں نہ کسی کا عقیدہ چیلنج ہوتا تھا نہ کسی کا فرقہ متاثر ۔ بلکہ یہ اتنا خوب صورت پیغام ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس سے متفید ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ قلندر پاکؒ سید صفدرحسین بخاریؒ نے انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات کی جانب متوجہ کیا ۔ آپؒ نے ہم سب کو کسی کی بھی محتاجی سے نکال کر ایک اللہ کی جانب متوجہ کیا جو دراصل انسانوں کا حقیقی خیر خواہ اور تمام مسائل کے حل کا مرکز ہے۔ قلندر پاکؒ کا مشن محبت تھا کہ واحد محبت ایک ایسی چیز ہے جو گھروں کو اجڑنے سے، معاشرے کو تباہی سے اور آخرت کو برباد ہونے سے بچا سکتی ہے۔ انہوں نے بس محبت کا درس دیا کہ اللہ پاک سے، انسانوں سے اور اللہ پاک کی ہر تخلیق سے محبت کرو ، سوچ کو مثبت کرو اور مسائل کا حل خود بخود سامنے آجائے گا۔ قلندر پاکؒ جانتے تھے کہ انسان کے دو بڑے دشمن ہیں ایک نفس دوسرا شیطان۔ دونوں مخلوقات کا مقصد بس حضرت ِ انسان کی تباہی ہے۔ یہ کام یہ دونوں اس خوبصورتی سےکرتے ہیں کہ بظاہر وہ آپ کو اپنے خیر خواہ نظر آتے ہیں۔ قلندر پاکؒ یہ جانتے تھے کہ ان کا طریقہ واردات کیاہے ۔ یہ دونوں ہمہ وقت انسان کے دل و دماغ میں منفی خیالات اور نفرت کے بیچ بوتے ہیں اور جب انسان دوسروں سے نفرت اور حسد کرنے لگتا ہے تو بس پھر تباہی شروع ہو جاتی ہے ۔اگر آپ غور کریں تو ہر جرم کے پیچھے یہ ہی دو عوامل نظر آتے ہیں ایک نفرت دوسرا حسد۔ قلندر پاکؒ جانتے تھے کہ لوگوں کو سمجھانے یا تبلیغ سے کو ئی تبدیلی نہیں آنی اگر ممکن ہوتی تو تبلیغ برسوں سے جاری ہے لیکن معاشرے پر کوئی مثبت اثرات نظر نہیں آتے اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ شیطان اور نفس نے حضرت انسان کو ایسے جکڑ رکھا ہے کہ وہ اول تو کوئی نصیحت سننے کو تیار نہیں ہوتا دوئم سن بھی لے تو اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اس کی وجہ دل اور روح کی کمزوری ہے جو منفی خیالات کی بدولت ہے۔ قلندر پاکؒ نے اس مرض کا تریاق بھی ایسا ڈھونڈا کہ خلق ِ خدا جتنا بھی ان کا شکریہ ادا کرے وہ کم ہے۔ وہ جانتے تھے کہ آدم ؑ کی اولاد جب تک کسی کام میں کوئی ذاتی فائدہ نہ دیکھے وہ کرنے کو تیار نہیں ہوتی ۔ لہذا قلندر پاکؒ نے سور ہ رحمان کی سماعت کا حکم دیا۔ لا علاج امراض ، دنیاوی مسائل اور حاجات کے لیے انہوں نے سورہ رحمان کی سماعت شروع کرائی۔ جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ لوگوں کے مرض ٹھیک ہونے لگے،، جادو ٹونہ ختم ہونے لگا، برسوں کی رُکی حاجات پوری ہونے لگیں اور یہ پیغام تیزی سے پھیلنے لگا۔ قلندر پاکؒ کی دور بینی کو سلام کہ انہوں نے اس کی فیس یہ رکھی کہ جو کوئی بھی سورہ رحمان سنے اور مستفید ہو تو اس پر لازم ہے کہ اس پیغام کو آگے دکھی انسانیت تک پہنچائے۔ لوگوں نے سورہ رحمان سنی اور فوائد حاصل کیےلیکن اس کا اصل فائد ہ جو بظاہر فوراَ نہیں سامنے آتا وہ ہے مثبت سوچ۔ سورہ رحمان کی سماعت انسان کے اندر شیطان اور نفس کے بُنے جال کو توڑتی ہے۔ مثبت سوچ کو جنم دیتی ہے اور یہ مثبت سوچ اندر موجود نفرت کو محبت میں بدل دیتی ہے اور پھر یہ محبت انسان کو اللہ کے قریب کر دیتی ہے ۔ اللہ پاک کی یہ قربت انسان کو اس مقصد کی جانب لے جاتی ہے جس کے لیے اللہ پاک نے انسان کو خلق کیا اور اسے اپنا نائب بنایا۔ اس طرح انسان اپنی ہمیشہ کی زندگی سنوار لیتا ہے۔ ذار غور کیجیے قلندر پاکؒ کی بصیرت اور انسانیت سے محبت کو کہ انہوں نے کس خو بصورتی سے سسکتی انسانیت کے مسائل کا حل دیا نہ صرف یہ کہ دنیا کے امتحان کے لیے آسانی فراہم کی بلکہ غیر محسوس طریقے سے اس اصل دشمن جو بنی نوع انسان کا ہے اس سے مقابلے اور جیتنے کا گُر سکھا یا۔ آج سے قریباَ دو سال پہلے میں ایک موذی مرض میں مبتلا ہوا جس کے خوف سے میرا وزن فقط 5 دنوں میں 10 کلو گر گیا۔ ڈاکٹروں نے میرا آپریشن کرنے سے ہی انکا رکر دیا میری حالت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی ہو چکی تھی۔ پھر مجھ تک اللہ کی رحمت اس پیغام کی صورت پہنچی ۔ 7 دن سورہ رحمن کی تلاوت قار ی عبدالباسط کی آواز میں بغیر ترجمے کے سنی۔ سب سے پہلے میرا خوف ختم ہوا مجھے احساس ہوا کہ کوئی ہے جو میرا ہے جس پر میں نےکبھی توجہ ہی نہیں کی تھی ۔ اللہ پاک کے ہونے کا احساس ہوا مجھے۔ میرا آپریشن ہوا نہایت آسانی سے ہوا ۔ مجھے شفا ء ملی اور میں دوبارہ سے نارمل زندگی گزار رہا ہوں ۔ ڈاکٹرز بھی حیران تھے کہ یہ معجزہ ہے۔ میرے گھر کے باقی افراد نے بھی سنی میری والدہ کی بہت پرانی اسکن الرجی جو ٹھیک ہی نہیں ہوتی تھی وہ ٹھیک ہوئی۔ میری بہن کا آپریشن سے بغیر شفاء یاب ہونا ، میرے دوست کا نوکری لگنا بے شمار فوائد ہیں جو سب یہاں بیان نہیں کیے جا سکتے ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر جو فائدہ مجھے ہوا وہ مثبت سوچ کا جنم لینا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب مجھ میں کچھ تبدیلی ہے۔ زندگی میں ملنے والی نا کامیوں پر جس طرح پہلے دل بیٹھ جاتا تھا ہمیشہ یہ ہی خیال دل میں آتا تھا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے اور باقی ہر کوئی خوش نصیب اور اپنا آپ بد نصیب لگتا تھا اُس احسا س سے چھٹکارا ملا۔ زندگی میں اب بھی بہت سی چیزیں حاصل نہیں ہوتی یا مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں لیکن جیسے ہی ایسا کوئی خیال دل میں آتا ہے فوراَ دوسرا خیال آجاتا ہے کہ یہ وسوسہ دل میں شیطان نے ڈالا ہے جو اللہ سے دور کر کے جہنم کی جانب لے جانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی دل سکون میں آجاتا ہے۔ یہ احساسِ بیداری اور دشمن کی پہچان قلندر پاکؒ کی مرہونِ منت ہے۔ قلندر پاکؒ 2005 میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنے پیچھے اپنا روحانی وارث جناب سید شاکر عزیر العروف سید بابا جان کو ہماری راہنمائی کے لیے چھوڑ گئے اور گزشتہ 20 برس سے سید بابا جان نہایت خوبصورت طریقے سے اس فرض کو بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ سید بابا جان کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں۔ ہر جمعہ دعا کا سیشن اسلام آباد میں ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ آئن لائن بھی شرکت کرتے ہیں۔ اپنی بیماری سے لے کر سورہ رحمان کے اس پیغام تک کے سفر نے مجھے یکسر بدل دیا ہے ۔ اللہ پاک پہلے بس دعا وؤں کی منظوری کی حد تک زندگی میں شامل تھے اور وہ بھی جب دعائیں قبول نہیں ہوتی تھیں تو مزید اللہ سے دوری ہوتی جاتی تھی لیکن اب اللہ پاک زندگی میں اس طرح شامل ہیں کہ ہر کام میں کوشش ہوتی ہے کہ اللہ پاک کی خوشنودی حاصلِ زندگی ہو۔ اب میں خود محسوس کرتا ہوں کہ اللہ ہے اور واقعتاَ وہ شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اس مثبت تبدیلی کے لیے نہایت ادب و احترام کے ساتھ قلندر پاکؒ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور سید بابا جان کا احسان مند ہوں کہ جو اپنی زندگی کو ہم جیسے کمزور، گناہ گار اور دنیا دار لوگوں کی اصلاح کے لیے وقف کر چکےہیں۔ میں بصدِ احترام یہ گزارش کرتا ہوں کہ جو بھی اس تحریر کا مطالعہ کرے وہ سورہ رحمان کی تلاوت قاری عبدالباسط کی آواز میں بغیر ترجمے کے سات دن متواتر سُنے ، بے شک اپنے کسی بھی دنیاوی مشکل یا بیماری کے لیے ہی سنے ۔ سورہ رحمان سننے کا مکمل طریقہ ویب سائٹ AlRehman.com پر دیکھا جا سکتا ہے اور وہاں سے ہی یہ سورہ ڈاون لو ڈ کر کے سماعت کی جا سکتی ہے اور بغیر ڈاون لو ڈ کیے ڈائرکٹ ویب سائٹ سے بھی سنی جا سکتی ہے۔ اسی ویب سائٹ پر سید بابا جان کے ہاتھ سے لکھی ایک بیش قیمت کتاب "قرب ِ حق " بھی موجود ہے جسے پڑھ کر آپ قلند ر پاکؒ کی زندگی کے تمام حالات اور ان کے سفر سے روشناس ہو سکتے ہیں۔ یہ کتاب بھی لازمی پڑھنی چاہیے۔ آخر میں بس یہ ہی کہوں گا کہ ہم سب اندھیرے میں جی رہے ہیں ہماری زندگی کا مقصد بس یہ دنیا ہے۔ تعلیم ، روزگار ، نوکری، کاروبار ہمارے ہر عمل کا مقصد بس اس دنیا کا مال کمانا ہے۔ حتی کہ ہماری عبادات کا مقصد بھی بس دنیاوی خواہشات کا حصول ہے اور جب ہم اس حاصل حصول میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا ذمہ دار بھی اللہ پاک کو ٹھراتے ہیں۔ اس طرح ہم غیر محسوس طریقے سے اللہ پاک سے دور اور جہنم کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ قلندر پاکؒ نے اسی اندھیرے کو دور کرنے کے لیے کام کیا اور طریقہ بتا گئے ہمیں بس اس طریقے پر عمل کرنا ہے ۔ تو آئیے اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی کو سنواریں سورہ رحمان کی سماعت سے خود بھی مستفید ہوں اور دوسروں کو بھی اس عظیم پیغام ِ حق سے روشناس کرائیں تاکہ سب فلاح پا جائیں۔ سہیل رضا تبسم کراچی۔
|