ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( سولہویں حدیث )
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( سولہویں حدیث )
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری زندگی پر احادیث کا اثر کے عنوان سے اب تک ہم پندرہ احادیث مبارکہ اور ان کی تفسیر پڑھ چکے ہیں آج کی تحریر ہماری سولہویں حدیث پر ہے جو سنن ابن ماجہ سے لی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ ”اے اللہ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں: اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو“ ( سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3837 )
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم نے چار باتوں سے اپنے رب کی پناہ کا ذکر کیا ہے ہم انشاء اللہ ان چار باتوں کو الگ الگ سمجھنے کی کوشش کریں گے اور پھر اگر اب تک عمل نہ کیا ہو تو عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے انشاء اللہ ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور ﷺ نے جو پہلی بات فرمائی وہ ہے کہ
1 : اس علم سے پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ نہ دے دراصل علم کی دو قسمیں ہیں 1. علم نافع علم نافع وہ ہے جس سے انسان اپنے رب کا تقرب حاصل کرے اور اس کے دین کی معرفت اور حق کے راستہ میں بصیرت حاصل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے
«اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا» ( ترمذي، رقم: 3599 ) ترجمعہ ”اے اللہ! تو مجھے جو علم نصیب فرمائے اس سے مجھے فائدہ پہنچا اور مجھے وہ علم دے جو مجھے فائدہ دے اور میرے علم میں اضافہ فرما۔“ 2: علم غیر نافع جیسا کہ اللہ ذوالجلال نے جادوگروں اور ہاروت وماروت کی سکھائی ہوئی باتوں کے پیچھے چلنے والوں کے متعلق فرمایا:
«وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ» ( سورہ البقرہ 102 ) ترجمعہ ”وہ ایسی چیز سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچاتی ہے اور انہیں فائدہ نہیں دیتی۔“
یعنی وہ علم جیسے ہم ناول اور ڈائجسٹ وغیرہ میں کہانیاں اور افسانے پڑھتے ہیں یہ نفع بخش نہیں ہیں علم صرف وہ ہی حقیقی علم ہے جو نفع بخش ہو جیسے ایک استاد ہے جو اس کے پاس علم ہے وہ دوسروں تک پہنچانے میں مصروف عمل ہے یہ عمل نفع بخش ہے اسی طرح عالم دین جب لوگوں کو اپنے علم کے ذریعے عالم دین حفاظ اور مفتی بنانے میں مصروف رہتے ہیں تو یہ بھی علم نفع بخش ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم نے اس حدیث میں دوسری چیز سے رب العزت کی بارگاہ میں پناہ طلب کی ہے وہ ہے
2: وہ دل جو اللہ تعالیٰ کے سامنے نرم نہ ہو اللہ رب العزت کے سامنے نرم نہ ہونے کا مطلب یہاں خوف خدا سے ہے یعنی جب انسان کا دل نرم ہوجاتا ہے تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور یاد رکھیئے کہ جب کسی انسان کا دل خوف خدا سے عاری ہو تو پھر نیکیوں کی طرف توجہ نہیں رہتی اور گناہوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان کوئی حیرت کی بات نہیں اور وہ گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی نہیں کرتا پھر اللہ تعالیٰ کی ڈھیلی رسی اس پر اور ڈھیلی کردی جاتی ہے اسی لیئے میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے ایسے دل سے اپنے رب تعالیٰ کے حضور پناہ طلب فرمائی ۔
3. اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو ۔ آسودہ نہ ہونے کا مطلب سیر نہ ہونا ہے سیر نہ ہونے والے نفس سے مراد دنیا کی دولت، شہرت اور منصب وغیرہ جس کا حریص نفس ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کئی لوگوں کو بیشمار دولت اور بیپناہ شہرت سے مالامال کیا ہوا ہوتا ہے لیکن ان کی حرص کم نہیں ہوتی اور وہ لوگ سب کچھ مل جائے پر اپنی زندگی کو گزارنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ نفس کی بدولت ہوتا ہے اسی لیئے میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ سے اس نفس سے پناہ طلب فرمائی کہ مجھے ایسا نفس نہیں چاہیئے جو کبھی بھرے ہی نہیں آسودہ ہی نہ ہو ۔
4 ۔ اس دعا سے جو قبول نہ ہو ۔ انسان جب بھی اور جو بھی دعائیں اپنے رب کی بارگاہ سے مانگتا ہے ان میں کئی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور کئی قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں اس کی تفصیل ہم آگے پڑھیں گے کیونکہ ابھی ہم ان چار باتوں کا مختصر جائزہ لے رہے ہیں جن پر حضور ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ سے پناہ طلب فرمائی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم غور کریں تو ہمیں بھی ہر وقت یہ دعائیں مانگتے رہنی چاہئے کیونکہ ان چاروں باتوں میں ہماری پوری زندگی کا نچوڑ ہے اب دیکھیں حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور ﷺ نے جس بات کی سب سے پہلے پناہ طلب فرمائی وہ تھی " وہ علم جس سے فائدہ نہ ہو " یعنی ایک شخص جس کے پاس فلم بنانے کا علم ہو اور کامیاب فلمیں بنانے کا ماہر ہو تو یہ علم اس کے کسی فائدے کا سبب نہیں ہاں دنیاوی اعتبار سے اس کے پاس دولت بھی ہوگی شہرت بھی ہوگی لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا بالکل اسی طرح کوئی شخص جادوگر ہو اور جادو کے علم میں ایک نام ہو اس کی شہرت ہو لیکن وہ علم اللہ رب العزت کی نزدیک کسی اہمیت کا حامل نہیں اور اس کے اس علم کی بدولت وہ گناہگار بھی ہوگا اور بروز قیامت اس کا انجام بہت برا ہوگا بالکل اسی طرح ہر وہ علم جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا نہیں ہمیں اپنے آقا و مولا حضور ﷺ کی طرح اپنے رب سے پناہ طلب کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے علم سے دور رکھے جو گناہوں کا سبب بنے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی سبب بنے اسی طرح گانا سیکھنا گانا گانا گانا سننا بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے اللہ تعالیٰ ایسے شوق اور ایسے علم سے دور رکھے اور ہم پناہ طلب کرتے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بالکل اسی طرح اللہ باری تعالیٰ نے فرمایا کہ جب انسان گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے یعنی عادی ہوجاتا ہے تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے نرم نہیں رہتا اس کے دل میں خوف خدا نہیں رہتا اور وہ گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے وہ صرف شیطان کے بہکاوے میں آکر اس کے راستے پر چل پڑتا ہے پھر اس کا انجام یہاں بھی برا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا حشر اچھا نہیں ہوتا اسی لیئے میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے رب تعالیٰ کے حضور اس دل سے پناہ طلب کی ہے جو نرم نہ ہو ہمارے فقہاء نے یہاں ایک اور بات بھی کہی ہے کہ دل کا نرم نہ ہونا کے معنی یہ بھی ہیں کہ کسی شخص کا دل دوسروں کے لیئے نرم نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے معاملے میں ہمیشہ وہ سختی سے پیش آتا ہے اور نرمی سے پیش آنا یا اچھا اخلاق کا برتائو کرنا اس کی عادت میں شمار نہیں ہوتا اور وہ اس اعتبار سے یہاں بےحس اور ظالم انسان کے طور پر پہچانا جاتا ہے یہاں اس عارضی دنیا میں تو وہ اپنی ظالمانہ سلوک کے بدولت سب کچھ حاصل کرلیتا ہے لیکن بروز محشر عذاب اس کا منتظر ہوگا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تیسری بات میں حضور ﷺ نے نفس کا ذکر کیا کہ جو کبھی آسودہ نہیں ہوتا یعنی انسان اس عارضی میں زندگی گزارنے کے لیئے ہر آسائش حاصل کرلیتا ہے دنیاوی اعتبار سے اس کے پاس دولت شہرت گاڑی بینک بیلنس اور ہر وہ چیز میسر ہوتی ہے جو زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے کافی ہوں لیکن پھر بھی اس کا نفس کچھ اور کچھ اور کے چکر میں اسے الجھا کر رکھتا ہے اور وہ نفس کبھی آسودہ نہیں ہوتا اور اگر دیکھا جائے تو آج کے دور میں یہ معاملہ ہر انسان کے ساتھ ہے کیونکہ جب ہم غور کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات ہیں جس میں سترہ ہزار نوسو نناوے مخلوق پیسہ نہیں کماتی لیکن پیٹ بھر کر کھاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق انسان ہے جو پیسہ بھی کماتا ہے لیکن اس کا پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں یعنی اس کا نفس آسودہ ہوتا ہی نہیں اس کی ہرس کم ہی نہیں ہوتی اسی لیئے میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسے نفس سے پناہ طلب کی ہے جو آسودہ نہ ہو اور ہمیں بھی یہ دعا ہر وقت مانگتے رہنا چاہئے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آخری بات دعا کے قبول نہ ہونے کی ہے دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات میں غفلت، توجہ کی کمی، اخلاص کا فقدان، ریاکاری، گناہ کی دعا، قطع رحم، اور معاشرے میں برائی کا عام ہونا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی دعا کے بدلے کسی مصیبت کو دور کر دیتا ہے یا بندے کے حق میں جو بہتر ہو وہ کرتا ہے، لہذا دعا کے قبول نہ ہونے پر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ غافل دلوں کی دعا قبول نہیں کرتا، اور دعا میں قلبی بے قراری اور توجہ کا ہونا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جب دعا مانگنے میں خلوص نہ ہو اور وہ خالص اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو، تو قبولیت میں رکاوٹ آتی ہے اس کے علاوہ اگر دعا دکھاوے یا لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جائے تو وہ مقبول نہیں ہوتی اورجب معاشرے میں برائی عام ہو جاتی ہے اور لوگ نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے منع کرنے سے گریز کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ دعا قبول نہیں فرماتا دعا میں نہایت عزم اور پختگی ہونی چاہیے، ایسا جملہ ادا نہ کریں کہ اگر تو دے بلکہ یااللہ تو دے اور تو ہی دے گا کہنا چاہئیے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم دعا مانگتے ہیں لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی لیکن دراصل بعض اوقات اللہ تعالیٰ دعا قبول نہ کرنے کی بجائے، دعا کی برکت سے کسی مصیبت کو دور کر دیتا ہے یا بندے کے لیے جو بہتر ہو، وہ کرتا ہے اسی لیئے دعا سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور ہمیشہ رب العزت سے یہ کہنا چاہیئے کہ یااللہ ہم پناہ مانگتے ہیں ان دعائوں سے جو تیری بارگاہ میں قبول نہ ہوں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے اس حدیث میں اپنے رب سے جن چار باتوں سے پناہ طلب کی ہے وہ اصل میں اپنی امت کے لیئے ایک سبق ہے انہوں نے قیامت تک آنے والی اپنی امت کو یہ سمجھا دیا کہ جو ان چیزوں سے بچے گا وہ دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی فلاح پائے گا اور ان سے بچنے کے لیئے ہر وقت ہر لمحہ یہ دعائیں مانگتے رہا کریں اگر دعا میں سچائی ہوگی خلوص ہوگا نیک نیتی ہوگی تو اللہ رب العزت ہمیں ان معاملات سے ہمیشہ بچا کر رکھے گا انشاء اللہ ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہمیں پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔ |
|