چینی خواتین کا سائنس و ٹیکنالوجی میں نمایاں کردار

چینی خواتین کا سائنس و ٹیکنالوجی میں نمایاں کردار
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین میں قیام کے دوران حالیہ برسوں میں ذاتی مشاہدے کی روشنی میں یہ دیکھا ہے کہ چینی خواتین تمام شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔آپ سیاست ،معیشت ، تعلیم ، دفاع ، سائنس و ٹیکنالوجی غرضیکہ کوئی بھی شعبہ اٹھائیں ، خواتین کی شرکت اور شمولیت واضح ہے۔تکنیکی امور کی بات کی جائے تو چینی خواتین سائنس و ٹیکنالوجی کی جدت میں بڑھتا ہوا کردار ادا کر رہی ہیں، جسے ملک کی جانب سے ادارہ جاتی اور پالیسی تعاون حاصل ہے۔

اسی طرح چین نے خواتین سائنسی و تکنیکی ماہرین کو قومی منصوبوں میں شامل کرنے اور فیصلہ سازی میں شرکت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، نیز ان کی جانچ اور حوصلہ افزائی کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔مثال کے طور پر، نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا نے خواتین درخواست دہندگان کے لیے نوجوان سائنسدانوں کے پروگرامز میں عمر کی حد بڑھا دی ہے، جو مختلف زمروں میں مردوں کے مقابلے میں دو سے پانچ سال زیادہ ہے۔ تحقیقی اداروں کی جانب سے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سبسڈی اور لچکدار اوقات کار فراہم کرنے کے امکانات کو وسعت دی گئی ہے ۔ یہ اقدامات خواتین سائنس و ٹیکنالوجی ماہرین پر بچوں اور خاندان کی دیکھ بھال کے بوجھ کو کم کرتے ہیں، انہیں تحقیق پر یکسو ہونے میں مدد دیتے ہیں اور خاندانی و پیشہ ورانہ زندگی میں توازن قائم کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

چین میں صنفی مساوات کا ایک سماجی ماحول موجود ہے۔یہ صنفی مساوات کا تصور ہی ہے جس نے چینی خواتین کو خلائی پروازوں کے مشن مکمل کرنے اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کا موقع دیا ہے۔ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے ہیں کہ چین میں خواتین سائنس و ٹیکنالوجی ماہرین کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے، صلاحیت کے ڈھانچے کو مسلسل بہتر بنایا جا رہا ہے اور ان کی قابلیت نمایاں حد تک ترقی کر چکی ہے۔ خواتین نے بنیادی نظریات، اطلاقی ٹیکنالوجی، انجینئرنگ کے عملی شعبوں اور دیگر میدانوں میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال 2024 میں تحقیق و ترقی کے شعبے میں خواتین کی تعداد 28 لاکھ 46 ہزار تھی ، جو 2012 کے مقابلے میں 16 لاکھ 92 ہزار زیادہ ہے۔آج ،خواتین چین کے سائنس و ٹیکنالوجی کے کارکنوں کا 45.8 فیصد حصہ ہیں، اور سائنس و ٹیکنالوجی کی جدت کے محاذ پر اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم میں طلباء و طالبات کے درمیان صنفی توازن قائم کیا گیا ہے۔ سنہ 2024 میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طالبات کی تعداد کل طلباء کا 50.76 فیصد تھی جو سنہ 1995 کے مقابلے میں 14.15 فیصد زیادہ ہے۔ تمام گریجویٹ طلباء میں خواتین کا تناسب 50.01 فیصد تھا، جو سنہ 1995 کے مقابلے میں 22.43 فیصد زیادہ ہے۔

مجموعی طور پر چینی معاشرے میں تعلیم، روزگار، جائیداد کی تقسیم اور ذاتی حقوق جیسے شعبوں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کا بہتر تحفظ یقینی بنایا گیا ہے اور قانون سازی کے ذریعے حقوق نسواں کی ضمانت دی گئی ہے۔ملک کی جانب سے صنفی مساوات کو فروغ دینے، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور خواتین کے جائز حقوق اور مفادات کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، صنفی مساوات جو چین کی بنیادی ریاستی پالیسیوں میں سے ایک ہے،کو ملک کے تعلیمی نظام میں شامل کیا گیا ہے.

صنفی مساوات کے تصور کے بارے میں شعور بڑھانے اور صنفی امتیاز کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات تسلسل سے جاری ہیں۔ کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کی ممانعت ہے اور یہ تاکید کی گئی ہے کہ ملازمت کی بھرتی ، داخلہ ، ترقی اور دیگر پیشہ ورانہ امور میں خواتین کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔اس بات کی ضمانت دینے کے لئے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں ، قانون سازی کے ذریعے یہ طے کیا گیا ہے کہ دیہی اجتماعی معاشی تنظیموں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کی اس بنیاد پر خلاف ورزی نہیں کی جائے گی کہ وہ غیر شادی شدہ ، شادی شدہ ، طلاق یافتہ ، بیوہ ہیں ، یا ان کے گھروں میں کوئی مرد نہیں ہے۔ خواتین کے حقوق اراضی اور متعلقہ حقوق اور مفادات کو بھی قانونی طور پر یقینی بنایا گیا ہے ، جو اس شعبے میں دیرینہ مسائل کو حل کرتا ہے اور دیہی خواتین کی بقا اور ترقی کے بنیادی حقوق کو مؤثر طریقے سے یقینی بناتا ہے۔  
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1630 Articles with 915948 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More