بااختیار خواتین ، ترقی یافتہ سماج

بااختیار خواتین ، ترقی یافتہ سماج
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے حالیہ برسوں میں صنفی مساوات اور خواتین کی بااختیاری کو فروغ دینے میں نمایاں پیش رفت کی ہے، اور اس سلسلے میں عالمی برادری کی کوششوں میں بھی اس کا فعال کردار رہا ہے۔

حقائق واضح کرتے ہیں کہ چین نے حقوق نسواں کی ترقی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں چینی خواتین میں "حصول، خوشی اور تحفظ" کا احساس ایک نئے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ چین نے آئین کی بنیاد، خواتین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے قانون کے مرکز اور 100 سے زائد قوانین و ضوابط پر مشتمل ایک قانونی نظام تشکیل دیا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے نجی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی سرگرمیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے گئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم میں طلباء و طالبات کے درمیان صنفی توازن قائم کیا گیا ہے۔ سنہ 2024 میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طالبات کی تعداد کل طلباء کا 50.76 فیصد تھی جو سنہ 1995 کے مقابلے میں 14.15 فیصد زیادہ ہے۔ تمام گریجویٹ طلباء میں خواتین کا تناسب 50.01 فیصد تھا، جو سنہ 1995 کے مقابلے میں 22.43 فیصد زیادہ ہے۔

خواتین اور بچوں کی بہتر صحت کو یقینی بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں چینی خواتین کی صحت میں قابل ذکر بہتری آئی ہے۔سنہ 2020 میں چین میں خواتین کی متوقع عمر 80.9 سال تک پہنچ گئی ہے۔خواتین کی ساکھ مختلف شعبوں میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور امور نسواں پر عالمی اداروں میں چین کی شرکت بھی ایک نئے عروج پر پہنچ گئی ہے۔

ڈیجیٹل معیشت کی لہر پر سوار ہو کر، جسے "شی پاور" کہا جاتا ہے، چین میں خواتین ایک متحرک قوت بن رہی ہیں۔اس وقت ،چین میں تمام انٹرنیٹ انٹرا پرنیورز میں سے نصف سے زیادہ خواتین ہیں، ڈیجیٹل تجارت اور لائیو سٹریمنگ ورک فورس کا ایک تہائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے، اور صرف سنہ 2024 میں، 14 ہزار سے زیادہ خواتین کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹرینر کے طور پر سرٹیفائیڈ کیا گیا، جو کہ جدید ترین شعبوں میں خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار کو واضح کرتا ہے۔

چین نے خواتین کو ڈیجیٹل معیشت میں بااختیار بنانے کے لیے تین محاذوں پر کام کیا ہے: حکمت عملیوں نے خواتین میں ڈیجیٹل خواندگی اور مہارت کو بہتر بنانے کے لیے واضح اہداف مقرر کیے ہیں۔ تربیتی پروگراموں نے دیہی علاقوں کی خواتین کو ای کامرس لائیو اسٹریمرز بننے اور گھریلو ماؤں کو آن لائن لرنرز بننے کے قابل بنایا ہے اور انکلوسیو فنانسنگ جیسی انٹرا پرنیورشپ حمایت نے خواتین کو ڈیجیٹل ٹولز کو نئے کیریئر کے راستوں اور کاروباری مواقع میں تبدیل کرنے میں مدد دی ہے۔

عالمی تناظر میں خواتین اب بھی خطرناک چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں، دنیا بھر میں تقریباً 10 فیصد خواتین انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی ہیں اور 60 کروڑ سے زیادہ تنازعات کا شکار ہیں، اور تشدد، امتیازی سلوک اور معاشی عدم مساوات کے مسائل برقرار ہیں۔چین نے ان چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے اپنا وژن، دانش اور حل پیش کیے ہیں، جو صنفی مساوات اور خواتین کے بااختیار ہونے کو فروغ دینے میں "معاون اور عمل" دونوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ملک نے خواتین کے درمیان تعاون کے شعبے میں دوستی کے دائرے کو وسیع کیا ہے، اور 140 سے زیادہ ممالک، 420 سے زیادہ خواتین کی تنظیموں و اداروں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تبادلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔چین نے 20 سے زیادہ ممالک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے 40 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا ہے، 180 سے زیادہ ممالک اور خطوں کی دو لاکھ سے زیادہ خواتین کو تربیت دی ہے اور 100 سے زیادہ ممالک میں خواتین کے لیے روزگار کی مدد فراہم کی ہے۔

چین دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر خواتین کی ترقی کے لیے سازگار بین الاقوامی ماحول اور ایک بہتر دنیا کی تخلیق میں تیز رفتار اضافے میں مدد کر رہا ہے۔چین خواتین کے ترقیاتی تعاون کو گہرا کرنے کے عمل کو اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور جنوب جنوب تعاون فریم ورک میں ضم کیے ہوئے ہے، تاکہ خواتین کی پائیدار ترقی کو مشترکہ طور پر فروغ دیا جا سکے۔

چین عہد حاضر میں درپیش سنگین چیلنجز بشمول موسمیاتی تبدیلی، عوامی صحت کے بحران اور انسانی بحران کے حل میں خواتین کی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں فعال کردار ادا کرنے کی حمایت کرتا ہے۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے چینی خصوصیات کا حامل سوشلسٹ راستہ مضبوط قوت حیات اور منفرد طاقتوں کا مظاہرہ کرتا ہے، جس نے چین کے گورننس نظام کی افادیت کو اجاگر کیا ہے ، انسانی تہذیب میں نئے عناصر شامل کیے ہیں اور عالمی ترقی کے لیے نئے راستے کھولے ہیں۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1641 Articles with 947315 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More