کراچی کے ایٹریم سنیماز اور ایٹریم مال کے ڈائریکٹر زاہد یونس حبیب

کراچی کے ایٹریم سنیماز اور ایٹریم مال کے ڈائریکٹر زاہد یونس حبیب سے فلم انڈسٹری اور پاکستان میں سنیما بزنس کے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو

عالمی کساد بازاری نے جہاں امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی اور فرانس جیسے معاشی لحاظ سے مضبوط ملکوں کو متاثر کیا ہے‘ وہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو اس عالمی معاشی بحران نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے مگر یہاں کچھ ایسے باہمت لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کی خاطر امریکہ کو خیر باد کہا اور ایسے حالات میں واپس آ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جبکہ بیشتر پاکستانی اپنے ملک میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے بیرون ملک منتقل ہونے کی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ باہمت‘ جرات مند اور حوصلہ مند بزنس مین زاہد یونس حبیب ہیں جنہوں نے اپنا مستقبل پاکستان میں دیکھتے ہوئے لاس اینجلس کی پرتعیش اور پر سکون زندگی کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان آ کر کراچی میں ایک جدید نوعیت کے شاپنگ مال کی بنیاد رکھی جس میں پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل سینما بھی قائم کیا۔ زاہد یونس حبیب پاکستان کی مشہور کاروباری شخصیت یونس حبیب کے جواں سال صاحب زادے ہیں جن کی تعلیم و تربیت امریکہ میں ہوئی‘ بینکنگ سیکٹر اور تعمیراتی صنعت میں اس فیملی کی نمایاں خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔زاہد یونس حبیب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لاس اینجلس میں گزارا مگر ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا تھالہٰذا پاکستان واپس آ کر کراچی میں ملک کے پہلے انٹرٹین منٹ اور ینٹڈ شاپنگ مال کی بنیاد رکھی جہاں سنیما کے علاوہ گیمنگ زون‘ فوڈ کورٹ‘ باﺅلنگ ایلے‘ ایگزی بیشن ہال اور دیگر سہولیات کو ایک ہی چھت تلے جمع کر دیا گیا ہے۔ ایٹریم مال کی کامیابی او رمقبولیت اس بات سے عیاں ہے کہ یہاں نیشنل اور انٹرنیشنل برانڈز کی ورائٹی نظر آتی ہے اور شہر کے مخدوش حالات میں بھی یہاں ہر وقت خریداروں کا رش رہتا ہے۔ زاہد یونس حبیب خریداروں کے اس رحجان کو اپنے سینماز کی مقبولیت سے جوڑتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کسٹمرز اور کلائنٹس کو اٹریکٹ کرنے کے لیے انہوں نے ایک کمپلیٹ پیکج ڈیزائن کیا ہے جسے ایٹریم مال کا نام دیا گیا ہے۔ زاہد یونس حبیب صاحب سے ملاقات کے بعد احساس ہوا کہ وہ عام پاکستانیوں کے برعکس سوچتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر طرف مایوسی‘ نا اُمیدی اور عدم تحفظ کی باتیں ہو رہی ہوں‘ زاہد صاحب مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے اور بہتری کی امید رکھتے ہیں‘ انہیں یقین ہے کہ پاکستان کے حالات ایک دن ضرور بہتر ہوں گے اور ہم دنیا کو لیڈ کریں گے۔

آئیے اس بلند حوصلہ‘ جرات مند اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال نوجوان بزنس مین سے آپ کی بھی ملاقات کراتے ہیں جن کی گفتگو میں ہم وطنوں کے لیے اُمید کا پیغام بھی پوشیدہ ہے۔
 

image

Oشاپنگ مال اور انٹرٹین منٹ کو یکجا کرنے کا خیال کیسے آیا؟
٭اب دنیا بھر میں یہ ٹرینڈ چل نکلا ہے اور یو ایس اے سے زیادہ ایشین ممالک میں پاپولر ہو رہا ہے۔ جب میں لاس اینجلس میں تھا تو تب ہی پلان کر لیا تھا کہ اپنے ملک میں جا کر ایک ایسا جدید مال بنانا ہے جہاں سنیما بھی ہو گا‘ تھیٹر بھی ہو گا‘ گنگ زون‘ فوڈ کورٹ‘ ایگزی بیشن ہال‘ سب کچھ ایک چھت تلے میسر ہو گا ۔ہم سے پہلے کسی نے اس طرف دھیان نہیں دیا تھا‘ جو لوگ کنسٹرکشن بزنس سے وابستہ ہیں‘ وہ یا تو پلازہ بنا رہے تھے اور یا پھر مٹی کے ڈھیر لگا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ انٹرٹین منٹ اور ینٹڈ مال بنانا ہے۔ اتفاق سے جب میں نے یہ پروجیکٹ شروع کیا تو مجھے بتایا گیا کہ گورنمنٹ نے بولی وڈ فلم کی امپورٹ کے حوالے سے اپنی پالیسی میں لچک پیدا کی ہے جس نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا کیونکہ ہمارا اپنا سنیما اور انڈسٹری تو تقریباً ڈیڈ ہو چکی تھی۔ جب میں نے مال میں سنیما بنانے کا ارادہ کیا تو میری فیملی نے سخت مخالفت کی کیونکہ انہیں یہ لگتا تھا کہ پاکستان میں اب سنیما کلچر دم توڑ چکا ہے اور کوئی نہیں آئے گا مگر میں اپنے اس فیصلے سے پر اُمید تھا۔ جب مال بن گیا تو سنیما کے لیے میں نے اس انڈسٹری کے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جن کا اس فیلڈ میںوسیع تجربہ تھا لیکن کسی سے بات بن نہیں سکی۔ فائنلی ندیم مانڈوی والا مل گئے جن سے میٹنگ کے بعد اندازہ ہوا کہ ان سے میری کیمسٹری میچ کرتی ہے۔ یہ کریڈٹ ندیم بھائی کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے میرے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ میرے پاس تو صرف سوچ تھی کہ سنیما بنانا ہے۔ اس کو تعبیر سے ندیم بھائی نے ہمکنار کیا جس کے لیے ہم نے ڈیڑھ سال محنت کی۔

Oکیا ندیم مانڈوی والا کی تجاویز کی روشنی میں آپ نے پروجیکٹ میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں‘ جیسا کہ مال سے تھیٹر کا Conceptمائنس کر دیا گیا؟
٭جی ہاں! کیونکہ ندیم بھائی کا خیال تھا کہ سنیما کے ساتھ تھیٹر کا کمبی نیشن نہیں بنتا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ہم تینوں ہالز میں سنیما بنائیں گے۔ اس کے علاوہ جس طرح کا تھیٹر میں چاہتا تھا‘ وہ یہاں ممکن نہیں تھا۔ میں تھیٹر کا جو Conceptباہر سے لیکر آیا تھا‘ اس کے لیے بڑی جگہ درکار تھی اور ہمارے ڈیزائن میں اس کی گنجائش نہ تھی لہٰذا اس آئیڈیے کو ڈراپ کر کے ایک سنیما ہال کا اضافہ کر دیا۔ ڈیجیٹل سنیما کا آئیڈیابھی انہی کا تھا۔ ہوا یوں کہ جب ہم پروجیکٹر اور دیگر ایکوئپ منٹس کی خریداری اور سرچ کے لیے نکلے تو ہمیں اندازہ ہواکہ آئندہ چند سالوں میں یہ تمام ٹیکنالوجی ڈیجیٹل ہو جائے گی اور آنے والا دور تھری ڈی فلموں کا ہے لہٰذا ندیم بھائی نے کہا کہ فی الحال ہم ایک ہال کو Dپروجیکٹر سے منسلک کرتے ہیں۔ اس طرح ہم نے پاکستان میں پہلی بار ڈی سنیما کی بنیاد رکھی جسے دیکھتے ہوئے اب دوسرے سنیماز بھی ڈیجیٹلائزہو رہے ہیں۔26دسمبر 2010ءمیری زندگی کا وہ یادگار دن تھا جب میں نے اپنے سنیماز کے باہر باکس آفس پر لوگوں کو ٹکٹس کی بکنگ کرتے دیکھا۔ ہر کوئی متجسس تھا کہ یہ کیسا سنیما ہو گا۔ لوگ مال کی تعریف کر رہے تھے۔ میں اس پہلی کامیابی اور پزیرائی پر بہت خوش تھا کیونکہ ہم نے اس وقت تک سنیما کی باقاعدہ پبلسٹی بھی نہیں کی تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا آپ نے صدر کے دل مین زینب النساءاسٹریٹ پر اتنا اچھا اور جدید مال بنایا ہے جہاں اتنا کچھ ہے۔ 31دسمبر کو یہاں فرسٹ مووی AVATARکی اسکریننگ ہوئی جس نے ریکارڈ رش لیا۔ ہم نے پہلے ہی ہفتے پاکستان کی Cinematicہسٹری کا ریکارڈ بزنس کیا اور پھر اگلے ہفتے اپنے ہی ریکارڈ کو بریک کیا۔ اس کے بعد سے اب تک آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم نے اس بزنس کا موڈ ہی چینج کر دیا ہے۔ دیگر سنیماز ہمارے انٹیریئر اور ایکسٹیرئیر سے متاثر ہو کر اپنے سنیماز کی کوالٹی اور اسٹینڈرڈ بہتر بنانے پر مجبور ہوئے۔ ہم نے آڈئینس کو انٹرنیشنلFeel دینے کے لیے فوڈ آئٹمز بھی امپورٹ کرنا شروع کئے تاکہ وہ یہاں کسی بھی بین الاقوامی سنیما کی سہولیات اور احساس پا سکیں۔ یہاں کی اسکرینز، یہاں کے واش رومز‘ ویٹنگ رومز‘ فوڈ کورٹ‘ غرض ایک کمپلیٹ پیکیج ہے جو ایک ٹکٹ میں ہم آفر کرتے ہیں۔

Oہماری لوکل فلم انڈسٹری کی ایک مخصوص لابی کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ انڈین فلموں کی وجہ سے ہے اور آپ ان کے پروموٹر ہیں؟ اس کے برعکس مقامی فلم انڈسٹری کو آپ لوگ نظر انداز کرتے ہیں‘ اپنی فلموں کو سپورٹ نہیں کرتے؟
٭دیکھیں جی! ہم سنیما چلاتے ہیں‘ نہ انڈین فلموں کے امپورٹر ہیں اور نہ پروموٹر۔ جب ہم نے سنیما بنانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت سنیما انڈسٹری پاکستان سے ختم ہو چکی تھی۔ لوگ سنیما گرا رہے تھے اور ہم بنا رہے تھے۔ ایٹریم میں ڈیجیٹل پروجیکٹر لگانے کا فیصلہ انڈین فلموں کی وجہ سے نہیں کیا گیا۔ بولی ووڈ میں تو تھری ڈی فلمیں بنتی ہی نہیں ہیں۔ اور ہمارا 50%بزنس تھری ڈی فلموں سے آتا ہے۔ اس طرح وہ لوگ تو غلط ثابت ہو جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا سنیما بولی وڈ فلمز کی وجہ سے چل رہا ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ لوگ بولی وڈ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سال ہمارے سنیمازپر کئی بولی وڈ موویز نے اچھا بزنس کیا مگر ہماری بیک بون تھری ڈی سنیما ہے جہاں سے 50%بزنس آتا ہے۔ بولی وڈ نے تو اب تک 2ہی تھری ڈی فلمیں بنائی ہیں جن میں سے ایک فلم ”ہنٹر“ اس سال ریلیز ہوئی ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی انڈسٹری کو سپورٹ نہیں کرتے وہ ”بول“ کو مثال بنائیں جس نے پاکستان بھر سے دس کروڑ روپے سے زیادہ بزنس کیا اور سب سے زیادہ شیئر ایٹریم نے دیا۔ میں کہتاہوں آپ اچھی فلمیں تو بنائیں‘ ہمیں تو فلم چلانی ہے‘ خواہ اردو ہو‘ پنجابی ہو‘ انگریزی ہو یا پھر انڈین۔ اب آپ سال میں چار فلمیں بنائیں اور ہم سے کہیں کہ صرف یہی دکھائیں تو باقی سارا سال ہم کیا کریں۔ بولی وڈ میں سالانہ ڈھائی سو سے تین سو فلمیں ریلیز ہوتی ہیں‘ ہم ہر فلم تو نہیں دکھاتے۔ صرف وہی فلمیں ریلیز کرتے ہیں جو اچھی ہوتی ہیں اور ہماری آڈئینس کے لیے ان میں کوئی اٹریکشن ہو! بالی وڈ میں سینکڑوں فلمیں بنتی ہیں مگر ساری تو ہم امپورٹ نہیں کر سکتے۔ جو لوگ سوچتے ہیں ہم لوکل انڈسٹری کو سپورٹ نہیں کرتے وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بزنس نہ ہونے کے باوجود ہم نے عید پر”لو میں گم“ اور”بھائی لوگ“ وغیرہ کی اسکریننگ کو یقینی بنایا۔ ”بول“ اچھی فلم تھی، لوگوں نے دیکھنا چاہی تو اب تک دکھائی جاتی رہی۔ میرا خیال ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری کو مثبت طرز عمل اختیار کرنا چاہئے اور بجائے تعصب کے یا خوف زدہ ہونے کے مقابلے کی ہمت کرنی چاہیے کیونکہ ہمارے ڈائریکٹرز‘ آرٹسٹس اور ٹیکنیشنز کسی سے کم نہیں ہیں۔ اگر ہم ماضی میں اچھی فلمیں بنا سکتے ہیں تو اب کیوں نہیں ؟
 

image

Oفلم انڈسٹری کے پریشر گروپ کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی جائے۔ اگر حکومت نے ان کے دباﺅ پر ایسا کوئی فیصلہ کیا تو اس سے ملٹی پلیکسز خصوصاً ایٹریم کے بزنس پر کتنا فرق پڑے گا؟
٭میرا خیال ہے کہ گورنمنٹ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جب سے اس سیکٹر میں سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ 2007ءمیں جب سے حکومت نے انڈین فلموں کے حوالے سے اپنی پالیسی میں لچک پیدا کی‘ آپ نے دیکھا کہ سنیما گرنا بند ہو گئے اور نئے نئے ملٹی پلیکسز بننے لگے۔ اب سنیما صرف سنیما نہیں رہا‘ ہم نے اسے ایک ماڈرن Lookدیا ہے او ریہ صرف گورنمنٹ کی دلچسپی سے ہوا کہ پاکستان میںسنیما انڈسٹری کا Revival ہو رہا ہے۔ اگر کسی وجہ سے گورنمنٹ اپنی پالیسی تبدیل کر کے یوٹرن لیتی ہے تو پھر اس بزنس کا بھی یوٹرن ہو گا اور دوبارہ اسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی قومی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم لوگ جذباتی ہو کر کہہ دیتے ہیں۔ ”نہیں.... ایسا نہیں ہوگا!“ یہ منفی سوچ ہے۔ مثبت سوچ ہے ”ہاں .... ایسا ہو سکتا ہے!“ آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ” انڈین فلمز نہیں چلنے دیں گے!“ آپ یہ بات اس طرح بھی تو کر سکتے ہیں کہ ٹھیک ہے۔ انڈین فلمز کے ساتھ اپنی فلموں کو بھی پروموٹ کریں۔ یہ چوائس آڈئینس کو کرنے دیں کہ وہ کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ دنیا کمپی ٹیشن کی ہے۔ ہر جگہ مقابلہ بازی کی دوڑ ہے۔ اس میں جو زیادہ اسٹرونگ ہے‘ وہ جیتے گا۔ آپ چاہیں کہ آپ کی کمزوری اور خامیوں کے ساتھ دنیا آپ کو قبول کر لے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ پاکستان فلم انڈسٹری کی ترقی کی بات کریں‘ پروموشن کی بات کریں تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ کیا مطالبہ ہے کہ بولی وڈ فلمز کو چلنے نہیں دیں گے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک سے کروڑوں کی انویسٹ منٹ واپس چلی جائے۔ میرے خیال میں یہ احمقانہ طرز فکر ہے۔ رویوں میں لچک سے مسائل حل ہوتے ہیں ورنہ تو آپ اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔انڈین فلموںپر پابندی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر اس سے وہ انویسٹرز ضرور بد دل ہوں گے جو ابھی سرمایہ کاری پلان کر رہے ہیں‘سنیما انڈسٹری ترقی کرے گی تو فلم انڈسٹری کا پہیہ چلے گا۔سنیما نہیں رہے تو انڈسٹری بھی بند ہو جائے گی۔

Oاس سچویشن میں آپ گورنمنٹ کو کتنا موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتی پالیسیز میں عدم تسلسل ہی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے؟
٭اس معاملے میں میری سوچ دوسروں سے مختلف ہے۔ میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا جو اسرائیل کی میڈیا پالیسی اور قومی سوچ کی عکاسی کرتا تھا۔ اس میں لکھا تھاکہ ایک روز یروشلم میں کوئی بم دھماکہ ہوا جس میں کئی لوگ مارے گئے۔ اگلے روز کے اخبارات نے اس واقعے کو نمایاں کرنے کی بجائے فرنٹ پیج پر ایک کسان کی تصویر لگائی جو اپنے ہاتھ سے اُگائی ہوئی سبزی دکھاتے ہوئے فخر سے بتا رہا تھا کہ اس سیزن میں اس نے فی ایکٹر ریکارڈ پیداوار حاصل کی۔یہ فرق ہے ان لوگوں میں اور ہماری طرز فکر میں۔ ہم لوگ تعمیری سوچ کی بجائے تنقید اور تخریب کو پسند کرتے ہیں۔ پازیٹو انرجی بہت ضروری ہے حالات کو بدلنے کے لیے ۔ہمیں بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ خوش رہنے سے غم سہنے کی عادت ہوتی ہے اور اگر آپ غمگین رہتے ہیں‘ ہر وقت شکوے شکایت کرتے ہیں تو دو چار خوشیاں بھی آپ کو خوشی نہیں دے سکتیں۔ کم از کم میں تو کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ بس جو بھی ہے ٹھیک ہے۔

Oآپ نے ان حالات میں ایٹریم مال جیسا منصوبہ شروع کیا جب کراچی جیسے شہرمیں سرمایہ کاری کو رسک سے تعبیر کیا جا رہا تھا؟
٭حالات واقعی بہت خراب تھے مگر مجھے خدا کی ذات پر پورا بھروسہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میرا آئیڈیا فلاپ نہیں ہو سکتا۔ دراصل میرے اندر خدا نے خود اعتمادی بہت دی ہے۔ پھر دوستوں اور میڈیا نے بھی بہت سپورٹ کیا۔ پاکستان میں بزنس کے لیے حالات ہمیشہ سازگار رہے ہیں‘ بس حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے‘ ہم جیسے ڈیولپنگ کنٹریز میں نوجوانوں اور بزنس کمیونٹی کے لیے بہ نسبت امریکہ‘ کینیڈا یا دیگر ترقی یافتہ دنیا کے کامیابی کے زیادہ مواقع ہیں۔

Oوہ کیا کشش تھی جس نے آپ کو امریکہ جیسا ملک چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور کیا؟
٭پاکستان میں دو طرح کے خوش نصیب ہوتے ہیں‘ ایک وہ جن کو تقدیر کی مہربانی سے بیرون ملک جا کر کیریئر بنانے کا موقع مل جائے اور دوسرا وہ جو باہر جانے کے بعد واپس پاکستان آ کر اپنے لیے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ میں دوسرے درجے کا خوش قسمت ہوں جسے واپس اپنے لوگوں میں آ کر پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا موقع ملا۔ میں باہر اس لیے بھیجا گیا تھا تاکہ وہاں سے کچھ سیکھ کر آﺅں اور اپنے لوگوں کو ڈلیور کروں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم جیسے لوگ امریکہ یا دیگر ملکوں سے کچھ حاصل کر کے اپنے ملک آتے ہیں تو ہمارے اپنے ہی ہمیں کسی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ پہلے تو میں ملک کے دیگر نوجوانوں کی طرح ڈرین آﺅٹ ہوا۔ پھر جب واپس آیا تو میرے والد سمیت دوستوں نے کہا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنے دماغ سے امریکہ کو نکال دو کیونکہ یہاں کی سوچ کچھ اور ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی کیا میں امریکہ اس لیے پڑھنے گیا تھا کہ واپس آ کر اس سارے تجربے اور تعلیم کو دھو ڈالوں۔ بات یہ ہے کہ ہم جیسے نوجوانوں کے ساتھ بڑا المیہ ہے کہ ہمیں بار بار مائیگریشن کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو میں دیسی سے پردیسی ہوا۔ پھر واپس آ کر دوبارہ دیسی بننا پڑ رہا ہے۔ دیسی سے پردیسی ہونا جتنا اذیت ناک تھا‘ پردیسی سے دیسی بننا اس سے زیادہ دشوار اور مشکل لگ رہا ہے۔ اس کا ذکر میں نے اپنی آٹو بائیو گرافی میں بھی کیا ہے جو یوتھ کے لیے ایک روڈ میپ ثابت ہو گی۔ میں ان نوجوانوں تک اپنے خیالات اور تجربات پہچانا چاہتا ہوں جو کہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور مواقع کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ میں نے امریکہ میں رہ کر اندازہ لگایا ہے کہ ہمارا برین جو کہ باہر ضائع ہو رہا ہے‘ وہ اپنے ملک میں واپس آ کر کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن ان کے پاس کوئی گائیڈ لائن یا گراﺅنڈ نہیں ہے۔ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو پاکستان آئے مگر ان کے ساتھ ڈیلنگز اچھی نہیں ہوئیں۔ وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں کر سکے۔ دراصل بیرون ملک رہ کر ہمارے لوگ قطرہ قطرہ جوڑ کر جمع کرتے ہیں‘ بڑی محنت اور برسوں کی کمائی سے جو سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے اگر اس کا صحیح استعمال نہ ہو تو آپ پھر زیرو پر آ جائیں گے۔ میں جب واپس آیا تو مجھے بھی اس قسم کی مشکلات در پیش تھیں‘ لوگ ڈرا رہے تھے۔ پہلا جھٹکا تو یہ لگا کہ ہماری کرنسی 40% ڈی ویلیو ہو چکی تھی۔ مجھے کہا گیا تم مال بنانے نکلے ہو‘ کیا کبھی امریکہ میں مال بنایا‘ سنیما چلایا‘ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں نے یہ سب نہیں کیا مگر مجھے پتہ ہے کہ مال کیسے چلایا جاتا ہے‘ ویک اینڈ کمپین کیسے ہوتی ہے۔ سیکیورٹی ارینج منٹس کیسے کئے جاتے ہیں؟ لائٹنگ کیسی ہونی چاہیے؟ فوڈ کورٹ کی کوالٹی کو کیسے برقرار رکھنا ہے؟ مجھے برانڈاویئرنیس ہے! ریٹیل ایکسپیریئنس ہے۔ یہ سب کافی ہوتا ہے ایک بزنس کے لیے۔ لہٰذا میں نے یہ پروجیکٹ شروع کر دیا۔

Oایٹریم مال کا موجودہ سیٹ اپ کس اسٹیج پر ہے؟
٭مال بزنس کی تین مرحلے ہوتے ہیں۔ بنانا.... بسانا او رپھر چلانا.... بنانے کے بعد ہم اسے بسانے کے مرحلے میں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جو آؤٹ لیٹس اوپن ہو چکے ہیں‘ وہ رش بھی لے رہے ہیں۔ ہم نے یہاں انٹرنیشنل برانڈز کے ساتھ لوکل برانڈز کو بھی ویل کم کیا ہے۔ ہمارے پاس جنید جمشید کا آﺅٹ لیٹ ہے۔ کھادی ہے‘ جعفر جی ہیں‘ Nikeہے۔ عام طور پر مالز میں 30%برانڈز کو جگہ دی جاتی ہے اور 70% نان برانڈز کے لیے اوپن کیا جاتاہے مگرہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایٹریم میں 70%آﺅٹ لیٹس برانڈز کو دیئے جائیں۔

Oآپ شاپنگ مال کی کامیابی کا کریڈیٹ سنیماز کو دیتے ہیں یا شاپنگ کے لیے آنے والوں کی وجہ سے سنیماز کا بزنس چل رہا ہے؟
٭میرا خیال ہے کہ انٹرٹین منٹ کی وجہ سے ہمارا مال زیادہ کامیاب ہے اور چونکہ ہم ایک کمپلیٹ پیکیج دے رہے ہیں تو لوگ ہڑتال‘ سردی‘ گرمی‘ برسات کی پرواہ کئے بغیر ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ہمارا پلس پوائنٹ ہے کہ ایٹریم میں آپ کو فیملی انوائرمنٹ ملتا ہے۔ مال کا Conceptہی یہی ہے کہ سنیما اپنے کسٹمرز کری ایٹ کرتا ہے۔ جہاں آپ کو برانڈز ملتے ہیں‘ انٹرٹین منٹ کے آپشنز ہیں‘ برانڈز کے لیے لانچنگ پیڈ ہے۔ ہم نے برانڈز کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے۔ چونکہ ہماری پاپولیشن اب انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے انٹرنیشنل ایکسپوزر حاصل کر چکی ہے تو ان کو ماحول بھی ایسا چاہیے۔ اب بازار انوائرمنٹ کی جگہ مال کا کونسیپٹ زیادہ پاپولر ہو رہا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ آنے والے چند سالوں میں پاکستان میں ایسے کئی جدید مالز ڈیولپ ہوں گے۔ جہاں انٹرٹین منٹ اور شاپنگ کی سہولت ایک ہی چھت تلے دستیاب ہو گی۔
UMAR KHITAB KHAN
About the Author: UMAR KHITAB KHAN Read More Articles by UMAR KHITAB KHAN: 10 Articles with 20237 views Secretary General:Karachi Film & TV Journalists Welfare Association.
Executive Editor: Monthly Metro Live
Published from Karachi.
Ex Member:Central
.. View More