بڑی مشکلوں سے پاکستان میں
سنیماا نڈسٹری کی حالت سنبھلی تھی اور بھارتی فلموں کی وجہ سے ناصرف خستہ
حال سنیماؤں کی رونقیں بحال ہوئیں بلکہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے رجحان
میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا، کئی نئے تھیٹرز اور ملٹی پلیکسز وجود میں
آئے اور تاریخ میں پہلی بار سینماانڈسٹری کا سالانہ ٹرن اوور ایک ارب روپے
سے زیادہ آیا، کراچی، لاہور، اور راولپنڈی سمیت ملک کے کئی شہروں میں جدید
سنیما گھروں کی تعمیر سے کم از کم یہ امکان ضرور پیدا ہوگیا کہ پاکستان سے
سنیما کلچر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ نئی جہت کے ساتھ دوبارہ جنم لے رہا ہے
مگر شاید یہ کامیابی اور سنیماؤں کی بحال ہوتی رونقیں چند ناعاقبت اندیشوں
سے ہضم نہیں ہورہیں اور ستم ظریقی یہ کہ سنیما انڈسٹری کی اس بے مثال ترقی
اور ڈیولپمنٹ کے دشمن کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی لوگ ہیں۔ لاہور میں مقامی
فلم انڈسٹری کے چند ناکام فلم میکرز نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے کہ پاکستان سے
سنیما کا وجود ختم کرکے دم لیں گے اور اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ
پہنانے کیلئے سید نور، عتیقہ اوڈھو، پرویزرانا، میاں امجد فرز ند علی، شیخ
اکرم، معمررانا، میرا، سمیت دیگر نے ایک احتجاجی جلسہ بھی کر ڈالا۔ ان
افراد نے مل کر ایک فلم ایکشن کمیٹی بھی بنائی ہے جو اس وقت تک چین سے نہیں
بیٹھے گی جب تک پاکستانی سنیماؤں سے بھارتی فلموں کی چھٹی نہیں ہوجاتی اور
فلم انڈسٹری کی طرح سنیماگھروں میں بھی تالے نہیں پڑجاتے۔ ان احتجاج کرنے
والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جناب آپ لوگ اس وقت کیوں خاموش تھے جب فلمیں نہ
ہونے کی وجہ سے سنیما بند ہورہے تھے اور اس انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں ورکرز
بے روزگار ہوگئے تھے؟ ماضی کو بھول کر حال کی بات کریں تو بھی ان کے پاس
بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کی کوئی منطقی دلیل نہیں ہے کیونکہ حقیقت
یہ ہے کہ فن کی کوئی سرحد اور فلم کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے
کہ آج فلم انڈسٹری کی خیر خواہی کا دم بھرنے والے کل تک خود بولی وڈ فلموں
میں کام کرنے کے لئے ویزے کے حصول کیلئے بھارتی سفارت خانے کے چکر لگاتے
رہے ہیں اورمعمررانا، سمیت جاوید شیخ، میرا وغیرہ تو اب بھی بھارتی فلم
میکرز سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
سید نور اپنی فلموں کے پرنٹس اور میوزک کے لئے متعدد بار بھارت یاترا کرچکے
ہیں اور پرویز رانا سے ان کی مشہور زمانہ جنگ کو لوگ آج تک نہیں بھولے جب
سید نور نے صائمہ کو پرویز رانا کی فلمیں کرنے سے روک دیا تھا۔ آپ کس
انڈسٹری کو زندہ کرنے کی بات کررہے ہیں؟ جہاں میاں امجد فرزند علی، جمشید
ظفر، حاجی عبدالرشید، میاں سرور بھٹی، شوکت زمان جیسے فلم سازوں نے برسوں
سے کوئی فلم نہیں بنائی۔ جہاں سید نور جیسے ہدایت کاروں نے ٹھیکہ سسٹم پر
فلمیں بنانے کا رواج دیا اور پروڈیوسرز سے 50لاکھ کی پروڈکشن کے90لاکھ روپے
وصول کئے۔ یہ تمام باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کل تک یہ تمام فلم ساز محض
اس وجہ سے سید نور کے خلاف ہوگئے تھے کہ وہ اپنے پروڈیوسرز کو بلیک میل
کرنے لگے تھے۔ آج وہی فلم میکرز انڈسٹری کا جھنڈا لے کر دہلی فتح کرنے نکلے
ہیں، جن کی وجہ سے جمشید ظفر، صفدر خان، صفدر ملک سہیل بٹ اور احد ملک جیسے
ریگولرپروڈیوسرز گھر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ اگر اس وقت سید نور، مسعود بٹ،
پرویز رانا، نے فلم سازوں کو مرنے سے بچالیا ہوتا تو یہ انڈسٹری بند نہ
ہوتی اور نہ بھارتی فلموں کیلئے راہ ہموار ہوتی۔حال ہی میں ریما خان نے
اپنی فلم ”لو میں گم“کے فنانسر کے ساتھ جو ”ہاتھ“ دکھایا۔ کیاوہ خبریں کسی
سے پوشیدہ ہیں؟ اگر پاکستان میں بجلی، آٹا، چینی، ٹماٹر، آلو، پیاز وغیرہ
کا بحران پیدا نہ ہوتا تو ہمیں کیا ضرورت تھی کہ بھارت سے1300آئٹمز امپورٹ
کرتے؟ ضرورت، ایجاد کی ماں ہے لہٰذا جب سنیماانڈسٹری کے سرائیول کا سوال
اٹھا تو سنیما مالکان کے پاس بولی وڈ فلمز کی پاکستان میںنمائش کے علاوہ
کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم انڈسٹری کی جانب سے جو
لوگ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور ان
فلموں کو مسلسل غیر قانونی کہہ رہے ہیں، کیا وہ نہیں جانتے کہ یہتمام بولی
وڈ فلمز قانونی طور پر رائٹس کے ساتھ پاکستان آتی ہیں، جنہیں پاکستان کا
سینسرز بورڈ سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ غیر قانونی طور پر
بھارتی فلموں کی اسمگلنگ میں ملوث ہے تو یہ وزارت ثقافت اورسینسرز بورڈ کا
کام ہے کہ ایسے عناصر کا سدباب کیا جائے۔ مگر جو امپورٹرز قانونی طور پر
فلمیں لارہے ہیں وہ حکومت پاکستان کو ریونیو کی مد میں لاکھوں روپے ادا
کررہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان فلم انڈسٹری کے احتجاجی عناصر کا کردار محض
بیان بازی تک محدود رہ گیا ہے۔ ان لوگوں سے اب فلمیں نہیں بنتیں، ہاں باتیں
بنانا اور بیان دینا خوب جانتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا
مطالبہ پورا ہوجائے تو نا صرف پاکستان سے سنیما کا وجود ختم ہوجائے گا بلکہ
اس کے نتیجے میں سینما انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں
گے۔ کل تک انہوں نے فلم انڈسٹری کے مزدوروں کا چولہا ٹھنڈا کیا اور اب
سنیما والوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ بھائیو! اگر سنیما بند
ہوگئے، اس شعبے میں ہونے والی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری رُک گئی تو پھریہ
لوگ اپنی فلمیں لیکر کہاں جائیں گے؟ بنگلہ دیش، نیپال یا سری لنکا ؟ جن کے
ساتھ جمشید نقوی اور اس قبیل کے دیگر فلم میکرز نے کو پروڈکشن کے نام پر وہ
سلوک کیا کہ آج وہاں کوئی پاکستانی فلم کا نام لینااور سننا پسند نہیں کرتا۔
آپ اس انڈسٹری کی بات کرتے ہیں جس کے ایک فلم ساز نے بینکاک کی سنے کلر لیب
سے پرنٹ ڈیولپمنٹ اور پوسٹ پروڈکشن کے چارجز ادا کئے بغیر چالاکی سے پرنٹ
اٹھا کر پوری فلم انڈسٹری کو اس ادارے سے بلیک لسٹ کرادیا۔ ان صاحب کے فراڈ
کی مکمل داستان فلم کی پروڈیوسر مسرت مصباح سے سنی جاسکتی ہے۔ آج کل یہ
موصوف ایک نجی چینل پر بیٹھ کر بڑی آسانی سے ضوریز لاشاری جیسے بزنس مین کو
”را“ کاایجنٹ کہہ کر میڈیا پاور کا ناجائز فائدہ اٹھا کر سمجھتے ہیں کہ بڑا
تیر مار لیا۔ ضوریز کو صرف اس وجہ سے ”را“ کاایجنٹ قرار دیا جارہا ہے کہ وہ
اس ملک میں اپنے بزنس کی بقاءکیلئے ہاتھ پیر کیوں ماررہا ہے؟ کیا ضوریز،
جہانزیب، ندیم مانڈوی والا اور دیگر ایگزی بیٹرز کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ
وہ اپنے بزنس، اپنی پراپرٹی اور اپنی روزی روٹی کی بقا کیلئے کوئی اقدام
کریں۔ اگر سنیما مالکان بھارتی فلمیں نہ دکھائیں تو پھر کیا دکھائیں؟ کیا
بنگلہ دیش، نیپال، چین، روس ، ایران، اور فرانس سے فلمیں درآمد کریں؟ بولی
وڈ فلمیں پچھلی تین دہائیوں سے ہمارے دل و دماغ میں رچ بس گئی ہیں، غیر
قانونی طور پر بھارتی فلموں کی اسمگلنگ پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا ،گھر
گھر کیبل اور ڈی وی ڈی کے ذریعے بھارتی فلموں کی اسکریننگ جاری ہے مگر
اعتراض ہے تو صرف اس بات پر کہ سینماؤں پر بھارتی فلموں کی اجازت کیوں ہے؟
پاکستان میں ڈش، سٹیلائٹ اور کیبل کلچر کے فروغ میں بنیادی کردار بھارتی
فلموں کی مقبولیت اور پسندیدگی نے ادا کیا جس کی وجہ سے صارفین نے
ماہانہ200سے500ادا کرنے کی ہامی بھری ۔سٹیلائٹ اور کیبل بھارتی چینلز اور
ڈراموں کی وجہ سے پھیلے جس کے بعد اس ملک میں نیوز چینلز اور انٹرٹینمنٹ
سمیت نجی چینلز کی یلغار ہوئی۔ آج ہمارے ڈراما چینلز نے بھارتی ڈراموں کو
پیچھے چھوڑدیا ہے اور جیو،اے آر وائی،سماءوغیرہ نے بی بی سی، سی این این کی
پاکستان میں مقبولیت کا گراف گرادیا ہے۔ ٹھیک یہی منطق سنیما انڈسٹری کی
بھی ہے۔ آپ سنیما تو بننے دیں۔ پھر پروڈکٹ لائیں اور مقابلہ کریں۔ جس طرح
شعیب منصور نے کیا۔ اگر پاکستان میں جدید سنیما کا تصور نہ آگیا ہوتا اور
یہ آڈئینس نہ ہوتی جو ان ملٹی پلیکسزکی مرہون منت ہے تو ”بول“ جیسی فلم کا
بزنس 5لاکھ بھی نہ ہوتا مگر اس فلم نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں 10
کروڑکا بزنس کیا۔ اگر سنیما انڈسٹری زندہ رہے گی توفلم انڈسٹری کا بھی کچھ
ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح کہ اگر کیبل نہ ہوتا توجیو،اے آروائی ،سماءاور دنیا ٹی
وی وغیرہ کا بھی وجود نہ ہوتا۔
کراچی کی اکثریت اُردو بولنے والوں پر مشتمل ہے اور ہماری فلم انڈسٹری
اُردو فلمیں بنا نہیں رہی تویہ طبقہ کہاں جائے؟کیا کراچی ،حیدر آباد،کوئٹہ
،میر پور خاص اور دیگر شہریوں کو آپ زبر دستی پنجابی فلمیں دکھائیں گے؟
فرنٹیر کی منطق تو سمجھ آتی ہے کہ وہاں کے فلم بینوں نے پشتو فلموں سے اپنی
تسکین کا سامان کرلیا مگر سید نور،پرویز رانا،سنگیتا اور دیگر فلم میکرز کے
پاس اس سوال کا کوئی جواب موجود ہے کہ آپ نے اُردو فلمیں دیکھنے والے طبقے
کو پچھلے پندرہ سالوں میں کیا دیا؟میں نے بحیثیت صحافی ساری زندگی پاکستانی
فلموں اور اپنے فن کاروں کی سر بلندی کی جنگ لڑی ہے مگرکیا میں کراچی میں
بیٹھ کر” گجردا ویر“،”وحشی جٹ“، ”غنڈی رن“،”آرائیں بادشاہ“ اور ”بٹ بدمعاش
“جیسی فلموں پر فخر کروں اور ان بے ہودہ قسم کی فلمز کو پروموٹ کروں کہ
میرے ملک کی فلم انڈسٹری یہ کچھ پروڈیوس کر رہی ہے ،جس نے ریاض شاہد،خلیل
قیصر،نذر الاسلام،پرویز ملک،ایس سلیمان،جیسی نابغہءروزگار ہستیوں کو جنم
دیا۔بلاشبہ سیدنور،پرویزرانا، حسن عسکری، سنگیتا، شان، اوراس انڈسٹری کے
تمام لوگوں پرہمیں ناز ہے کہ انہوں نے کبھی بہت اچھا کام بھی دیا مگریہ لوگ
اپنی ناکامیوں کے ذمہ دار بھی خود ہیں۔ ہمیں بجائے دوسروں کا گھر جلانے کے
اپنی خامیوں پرغور کرناچاہئے اورماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی پیش
بندی کرنی چاہئے ورنہ داستان تک بھی نہ ہوگی ہماری داستانوں میں۔یہ وقت
لڑائی جھگڑے یا ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا نہیں ہے،ہم کوئی
صومالیہ،افغانستان،اور موغادیشو جیسا ملک بھی نہیں ہیں کہ جہاں قدامت پرستی
اور رُجعت پسندی کا غلبہ ہو اور عوام کے پاس کوئی چوائس نہ ہو۔پاکستان کی
یوتھ بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے لگی ہے۔خدارا،اس سوچ کا راستہ مت روکیئے
ورنہ شاید آنے والا وقت ہمیں اپنی غلطیوں کے مداوے کی مہلت بھی نہ دے !! |