" />

کاہل: اکبر کے دور سے آج تک ، سماجی تعصب اور محنت کش طبقے کی حقیقت

(adil mehmood, Charsadda)

کاہل: اکبر کے دور سے آج تک ، سماجی تعصب اور محنت کش طبقے کی حقیقت

تحریر: عادل محمود

تاریخ کے اوراق میں جب ہم "کاہل" کا ذکر پڑھتے ہیں تو فوراً ذہن میں "سست، کاہل، کام چور" جیسے الفاظ آتے ہیں۔ لیکن اگر ہم شہنشاہ اکبر کے دور (1556ء–1605ء) کے معاشرتی حالات اور ابوالفضل کی آئینِ اکبری کو دیکھیں، تو حقیقت کچھ اور سامنے آتی ہے۔ "کاہل" دراصل ایک محنت کش برادری تھی جو کھیتی باڑی، مزدوری اور چھوٹی دستکاری سے وابستہ تھی۔ لیکن سماجی تعصب اور جاگیردارانہ نظام نے ان پر "سستی" کا لیبل لگا دیا تاکہ ان کو نیچا دکھایا جا سکے۔

یہ مسئلہ صرف تاریخ تک محدود نہیں۔ آج کے پاکستان اور برصغیر کے سماجی و معاشی حالات میں بھی یہی رجحان نظر آتا ہے۔ محنت کرنے والے طبقات کو اکثر "جاہل، کاہل یا نکمّا" کہہ کر ان کی قربانیوں کو چھپایا جاتا ہے۔

شہنشاہ اکبر نے اپنی سلطنت کو منظم کرنے کے لیے ہندوستان کی مختلف قوموں، برادریوں اور پیشوں کا اندراج کروایا۔ ابوالفضل کی آئین اکبری میں "کاہل" کا ذکر بطور برادری ہوا ہے۔ یہ لوگ بنیادی طورپر ،کھیتوں میں ہل جوتتے تھے، جاگیرداروں کے لیے مزدوری کرتے تھے، اور بعض اوقات چھوٹی موٹی دستکاری کے کام میں لگے رہتے تھے مگر چونکہ وہ سماجی درجہ بندی میں "نچلی ذات" سمجھے جاتے تھے، اس لیے ان پر "سستی" کا الزام لگا کر انہیں کم تر ثابت کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطنت کی معیشت ان کی محنت پر کھڑی تھی۔

"کاہل" کو سست کہنا محض لسانی کھیل نہیں تھا، بلکہ ایک سماجی و سیاسی ہتھیار تھا۔ جاگیردار اور حکمران یہ باور کراتے تھے کہ یہ لوگ فطرتاً سست اور نکمے ہیں، اس لیے ان کی غربت اور پسماندگی ان کی اپنی کوتاہی ہے۔یہ بیانیہ آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر کسان کو کہا جاتا ہے کہ وہ "غیر تربیت یافتہ" ہے، اس لیے غربت میں ہے۔مزدور کو کہا جاتا ہے کہ وہ "کام چور" ہے، اس لیے ترقی نہیں کرتا۔ اور چھوٹے کاریگروں کو "غیر معیاری" کہہ کر ان کی محنت کی قیمت کم کر دی جاتی ہے۔ یہ سب الزامات دراصل حکمران طبقے کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ اصل ظلم اور استحصال کو چھپاتے رہیں۔

آج کے پاکستان میں بھی "کاہل" جیسا لیبل الگ شکلوں میں نظر آتا ہے۔ کپڑا بنانے والا مزدور دن رات کارخانوں میں مشقت کرتا ہے مگر کہا جاتا ہے "پاکستانی مزدور سست ہیں، اس لیے ہماری انڈسٹری ترقی نہیں کرتی"۔ کھیتوں میں کسان پسینہ بہاتا ہے مگر ریاست اور سرمایہ دار کہتے ہیں "ہمارے کسان جدید نہیں، یہ اپنی محنت کو ضائع کرتے ہیں"۔ گھروں میں کام کرنے والی عورتیں روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرتی ہیں مگر ان پر "سست" یا "غیر ذمہ دار" کا الزام لگتا ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سماجی و معاشی نظام میں محنت کش طبقے کو آج بھی اسی طرح بدنام کیا جاتا ہے جیسے اکبر کے دور میں "کاہل" کو بدنام کیا گیا۔

سماج میں اصل دولت پیدا کرنے والا محنت کش طبقہ ہوتا ہے۔ لیکن حکمران طبقہ ان کو ہمیشہ ذہنی و اخلاقی طور پر کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کی محنت کو سستے داموں خریدا جا سکے۔ اکبر کے دور کے "کاہل" بھی اسی حقیقت کی علامت ہیں۔ وہ سست نہیں تھے، بلکہ اصل معیشت ان کے کندھوں پر کھڑی تھی۔ بالکل اسی طرح آج کے مزدور، کسان اور کاریگر بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، مگر ان کو الزام دے کر کمزور کیا جاتا ہے۔

"کاہل" کا تاریخی کردار ہمیں یہ بتا دیتا ہے کہ ہمیں صرف الفاظ یا الزامات پر نہیں بلکہ حقیقت پر نظر ڈالنی چاہیے تاریخ میں "کاہل" کو سست کہا گیا، مگر وہ اصل میں محنت کش تھے۔ آج مزدور اور کسان کو کمزور اور کاہل کہا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی طبقے سماج کو زندہ رکھتے ہیں۔ ہمیں ان منفی بیانیوں کو توڑ کر محنت کش طبقے کی محنت کو عزت دینی ہوگی۔

اکبر کے دور کا "کاہل" ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محنت کش طبقہ کبھی سست نہیں ہوتا۔ اصل کاہلی تو ان حکمرانوں اور جاگیرداروں کی ہے جو دوسروں کی محنت پر جیتے ہیں۔

 

adil mehmood
About the Author: adil mehmood Read More Articles by adil mehmood: 10 Articles with 7968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.