جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آفات کی روک تھام
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آفات کی روک تھام تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات دنیا کے سب سے بڑے چیلنجوں میں شامل ہیں، جو انسانی سلامتی اور پائیدار ترقی کے لیے خطرہ ہیں۔اسی تناظر میں ابھی حال ہی میں دنیا میں آفات کے خطرے میں تخفیف کا 36 واں بین الاقوامی دن منایا گیا۔ رواں برس اس دن کا موضوع رہا "تباہیوں پر نہیں، لچک پر فنڈ کریں"۔ ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے آفات سے بچاؤ اور ردعمل کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
آفات سے بچاؤ کی خاطر ، چین نے اپنے ہنگامی ردعمل کی جدید کاری میں تیز رفتار اضافہ کیا ہے۔چین کے 14ویں پانچ سالہ منصوبے کے مطابق، ملک 2035 تک جدید، ذہین، اور ہم آہنگ فریم ورک تیار کرنے کا ہدف رکھتا ہے، جو ڈیجیٹلائزیشن، سائنس پر مبنی فیصلہ سازی، اور عوامی شرکت کو یکجا کرتا ہے۔
اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ چین کی موسمیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی، خاص طور پر موسمیاتی سیٹلائٹس کے شعبے میں ترقی دنیا میں ایک نمایاں درجے پر پہنچ چکی ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کے موسمیاتی تصورات میں کھلا پن، اشتراکیت اور باہمی شیئرنگ کی خصوصیات نمایاں ہیں اور چین اپنے ساتھ دیگر دنیا کو بھی ساتھ لے کر چل رہا ہے۔
چینی حکام نے بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں اصلاحات اور تکنیکی جدت طرازی میں نمایاں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ان میں "ڈی ٹنگ" کی تخلیق بھی شامل ہے، جو 100 ملین سے زیادہ پیرامیٹرز والا دنیا کا پہلاسیس میک ویو ماڈل ہے، جو زلزلے کے تخمینے اور ابتدائی انتباہی صلاحیتوں کو نمایاں انداز سے فروغ دیتا ہے۔
چائنا میٹرولوجیکل ایڈمنسٹریشن کے مطابق، چین نے زمین، سمندر، ہوا اور خلا پر محیط، دنیا کا سب سے بڑا اور جامع ہم آہنگ موسمیاتی مشاہداتی نظام بھی تعمیر کیا ہے۔ اس نظام میں نو فینگ یون موسمیاتی سیٹلائٹ، 842 موسمی ریڈار، اور 90,000 سے زیادہ زمینی مشاہداتی اسٹیشن شامل ہیں۔
چین کے ملکی ساختہ بیدو نیوی گیشن سسٹم نے موسمیاتی عوامل کے معائنے میں جی پی ایس اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں، ملک کا ریڈار مانیٹرنگ نیٹ ورک بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ پایے تک ترقی کر چکا ہے ۔ یہ اب 90 فیصد سے زیادہ گنجان آباد علاقوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ نظام تباہ کن موسمیاتی واقعات کا 80 فیصد سے زیادہ پتہ لگاتا ہے، جس میں شدید بارش، ژالہ باری، بگولا اور طوفان جیسے چھوٹے اور درمیانے پیمانے پر شدید مظاہر کا بہتر پتہ لگانے کی صلاحیت ہے۔
چینی حکام کے نزدیک موسمیاتی سیٹلائٹ اور ریڈار اس وسیع نظام کے مرکزی اجزاء ہیں، جن میں زمینی اسٹیشنوں، ہائی الارٹیٹیڈ سینسر، ریموٹ سینسنگ عمودی مشاہدے کے آلات، اور گرین ہاؤس گیس مانیٹرنگ نیٹ ورکس کے ذریعے اضافہ کیا گیا ہے۔ پہلی بار، 35 چھوٹے تجارتی موسمیاتی سیٹلائٹ بھی آپریشنز کا حصہ ہیں، جو ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے فینگ یون سیٹلائٹ کے اضافے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین ان سائنسی کامیابیوں کو دیگر دنیا کے ساتھ بھی بانٹ رہا ہے۔ فینگ یون سیریز کا ڈیٹا درجنوں ممالک کو دستیاب ہے، جو ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں آفات کی نگرانی اور ابتدائی انتباہ کے لیے اہم اسپورٹ فراہم کرتا ہے۔ چین کے محکمہ موسمیات نے کئی بین الاقوامی تعاون کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں تاکہ شراکت دار ممالک کو ٹیکنالوجی کے ذریعے موسمیاتی لچک پیدا کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔
جدید زلزلہ ماڈلنگ سے لے کر خلائی مشاہدے تک، چین کی بڑھتی ہوئی تکنیکی صلاحیتیں نہ صرف اندرون ملک قیمتی انسانی زندگیوں کا تحفظ کر رہی ہیں بلکہ ایک محفوظ، زیادہ لچکدار کرہ ارض کی تشکیل کی عالمی کوششوں کو بھی سپورٹ کر رہی ہیں۔ |
|