سفید ہاتھی کا طلسم — بی آر ٹی وقتی شاہکار یا “ٹوٹا پھوٹا خرافات”؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کی بی آر ٹی صرف ایک ٹرانسپورٹ منصوبہ نہیں، بلکہ یہ وہ “سفید ہاتھی” ہے جو ہر دو ہفتے بعد اپنا وزن سڑک پر آزماتا ہے۔ کبھی پہیے رکتے ہیں، کبھی بسیں، کبھی سڑکیں۔ پھر انتظامیہ آتی ہے، تھوڑا سا جادو دکھاتی ہے، اور عوام کو یقین دلاتی ہے کہ “سب ٹھیک ہے” — مگر چند دن بعد وہی پرانا قصہ دوبارہ دہرا دیا جاتا ہے۔اگر کوئی کہے کہ یہ صرف ایک بس سروس ہے تو شاید وہ اس کے “طلسم” سے واقف نہیں۔ یہ منصوبہ ایک مکمل ڈرامہ ہے، جس کے ہر ایکٹ میں نیا ہیجان، نئی خرابی، اور نیا وعدہ ہوتا ہے۔
شروع میں کہا گیا تھا کہ بی آر ٹی جدید طرز کی ٹرانسپورٹ ہوگی، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور عوام کے لیے آسان۔ مگر عملی طور پر ہوا یہ کہ قرضے لیے گئے، ٹھیکیدار آئے، ڈیزائن بنے، پھر بدلے گئے، اور آخر میں جب عالمی بینک نے اپنی رپورٹ دی تو بتایا کہ “بس اسٹیشنز میں تکنیکی غلطیاں” ہیں۔چند اسٹیشن اتنے تنگ بنائے گئے کہ بس اندر داخل ہونے سے گھبرا گئی۔ پلیٹ فارم کا فاصلہ اتنا غلط تھا کہ مسافروں کو جمپ لگا کر چڑھنا پڑتا تھا۔ کہیں فرش اتنا پھسلن والا کہ ذرا بارش ہو تو “سلائڈنگ بی آر ٹی” شروع ہو جاتی تھی۔یوں لگتا تھا کہ منصوبہ نہیں، کسی آرٹسٹ کا تجریدی خاکہ ہو — سمجھنے کے لیے الگ تربیت چاہیے۔
اب ذرا حال کی بات کرتے ہیں۔ گلبہار سے صدر تک بی آر ٹی کی خصوصی سڑکیں اب کسی آثارِ قدیمہ کی جھلک دیتی ہیں۔ ٹوٹے ہوئے ٹائل، مٹی کے ڈھیر، جگہ جگہ گڑھے۔ عوام جب بس کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں تو اکثر سوچتے ہیں کہ یہ روٹ ہے یا مائن فیلڈ؟کسی زمانے میں بی آر ٹی “فخرِ پشاور” کہلاتی تھی۔ اب “فکرِ پشاور” بن گئی ہے۔عوام کی شکایت ہے کہ بسوں کے ٹائر بار بار پنکچر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو ٹائر خود چیخ کر کہتا ہے، “مزید نہیں صاحب، اب تو قبر کھود لو۔”وجہ؟ ناقص مٹیریل، خراب ڈیزائن اور غفلت کا طوفان۔
حکومت نے بی آر ٹی کو مزید بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ نئے روٹس، نئی لائنیں، نیا شور۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پرانی لائنوں کا کیا ہوگا؟ اگر موجودہ سڑکیں ہر ہفتے “ٹوٹ پھوٹ” کا شکار ہیں، تو نئے راستوں کا انجام پہلے ہی واضح ہے۔یونیورسٹی روڈ پر بی آر ٹی کی سیڑھیاں ہٹانے کا وعدہ ہوا تاکہ ٹریفک آسان ہو، مگر سیڑھیاں بدستور عوام کو تنگ کر رہی ہیں۔ جیسے وعدے صرف پریس ریلیز میں ہی پورے کیے جاتے ہوں۔
اب آتے ہیں پلازوں کی کہانی پر — وہی ڈبگری اور چمکنی کے بی آر ٹی پلازے جہاں دکانیں ایسے کرائے پر دی گئی ہیں کہ عام شہری کا سانس رک جائے۔کبھی سوچا کہ ان کرایوں سے حاصل رقم کہاں جا رہی ہے؟انتظامیہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ لگتا ہے جیسے بی آر ٹی صرف بسیں نہیں چلاتی، بلکہ “پراپرٹی بزنس” بھی ساتھ ساتھ کر رہی ہے۔اگر عوامی منصوبے کے نام پر دکانیں بنائی جائیں، پھر انہی سے نفع کمایا جائے، اور عوام کو بتایا جائے کہ “منصوبہ خسارے میں ہے” — تو یہ لطیفہ نہیں، ظلم کی نئی صنف ہے۔چمکنی کی عمارت مرمت مانگتی ہے، ڈبگری کا ڈھانچہ جھولتا ہے، مگر انتظامیہ کا بیان وہی پرانا: “جلد حل کیا جائے گا۔”یہ “جلد” اتنا طویل ہے کہ بعض افسران ریٹائر ہو جاتے ہیں، مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
بی آر ٹی پر ایک منظر عام ہے: جیسے ہی بس رکتی ہے، صف بنائے کھڑے لوگ اچانک سپر مین بن جاتے ہیں۔ نہ ضابطہ، نہ لحاظ، نہ نظم۔یہ منظر صرف بدانتظامی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی تربیت کا عکس ہے۔بس کے اندر بیٹھے مسافر اگر ایک لمحے کو آئینہ دیکھیں تو شاید سمجھ جائیں کہ بی آر ٹی کی خرابی صرف سڑکوں میں نہیں، ہم میں بھی ہے۔بعض صارفین شکایت کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین بڑی تعداد میں بی آر ٹی استعمال کرتے ہیں، جس سے بسیں بھر جاتی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کون سفر کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ انتظامیہ نے مسافروں کے بہاو کا کوئی موثر نظام بنایا ہی نہیں۔
بی آر ٹی اب انتظامی ناکامی کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ ADB کی رپورٹیں، عوامی شکایات، عدالتی نوٹس — سب کچھ منظر پر آ چکا ہے۔مگر حکومت ہر دفعہ نئے “افتتاح” کے ساتھ پرانی خرابیاں بھول جاتی ہے۔یہ منصوبہ اب اس مقام پر ہے کہ اگر کسی دن بند ہو جائے تو عوام حیران نہیں ہوں گے، بلکہ کہیں گے: “چلو، آخر کار سچ مان لیا گیا۔” پنجاب حکومت کو واجب الادا ۵۰۰ کروڑ روپے بھی تلوار بنے ہوئے ہیں۔ اگر ادائیگی نہ ہوئی تو سروس معطل ہو سکتی ہے۔ تصور کریں، ایک اربوں روپے کا منصوبہ چند کروڑ کی ادائیگی نہ ہونے پر رک سکتا ہے۔
طنز اپنی جگہ، مگر یہ منصوبہ مکمل ناکامی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر نیت اور شفافیت ہو تو یہی بی آر ٹی پشاور کی شان بن سکتی ہے۔ کچھ فوری اقدامات ضروری ہیں:ADB کی نشاندہی کردہ خامیوں کو درست کیا جائے۔ فرش، پلیٹ فارم، بس فاصلہ، سب کی دوبارہ جانچ ہو پلازوں کے کرایے، آمدن، اور مرمت کے بجٹ عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ ہر سال دوبارہ تعمیر کی بجائے باقاعدہ مینٹیننس میکانزم ہو۔جو افسر یا ٹھیکیدار لاپرواہی کا ذمہ دار ہے، اس کا نام عوامی رپورٹ میں شامل کیا جائے۔ نئے راستے بنانے سے پہلے پرانے ٹھیک کیے جائیں، ورنہ بی آر ٹی “بی آر تباہی” بن جائے گی۔
بی آر ٹی کی کہانی دراصل ہمارے اجتماعی مزاج کا آئینہ ہے:بڑا منصوبہ، بڑی تشہیر، پھر خرابی، پھر خاموشی۔ یہ وہی چکر ہے جو ہمیں ترقی کے بجائے چکرا دیتا ہے۔ یہ “سفید ہاتھی” اب فیصلہ مانگتا ہے — یا اسے عوامی خدمت کا حقیقی ذریعہ بنایا جائے، یا اسے تسلیم کیا جائے کہ یہ صرف ایک “ٹوٹا پھوٹا خرافات” ہے۔
اگر اصلاح نہ ہوئی تو آنے والی نسلیں شاید پوچھیں گی:“یہ وہی منصوبہ ہے جس پر اربوں خرچ ہوئے تھے؟ یا کوئی مذاق تھا جو سنجیدگی سے لے لیا گیا؟” پشاور کے لوگ اب خواب نہیں، جواب چاہتے ہیں۔ بی آر ٹی کو چمکدار بسوں سے نکال کر شفاف نظام کی بساط پر رکھنا ہوگا۔ ورنہ یہ سفید ہاتھی ایک دن شہر کے ہر کونے پر طنز بن کر کھڑا ہوگا، اور عوام کہیں گے —“بس چلی نہیں، بلکہ قوم ہی چل گئی۔”
#brt #road #construction #kpk #kp #peshawar #musarratullahjan #pakistan'
|