غذائی تحفظ کے لیے موئثر اقدامات کی ضرورت
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
غذائی تحفظ کے لیے موئثر اقدامات کی ضرورت تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق دنیا بھر میں 673 ملین افراد اب بھی بھوک کا شکار ہیں، جبکہ 2.3 بلین افراد غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں غذائی تحفظ کے لیے موئثر اقدامات کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب چین نے مسلسل کوششوں کے ذریعے، دنیا کی کل قابل کاشت اراضی کے محض نو فیصد اور تازہ پانی کے وسائل کے چھ فیصد کے ساتھ، دنیا کی آبادی کے تقریباً پانچویں حصے کو خوراک فراہم کی ہے۔ یہ عالمی غذائی تحفظ میں یقیناً ایک بہت بڑا تعاون ہے۔چین نے گذشتہ پانچ سالوں میں اپنی 1.4 ارب آبادی کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ، گذشتہ پانچ سالوں میں چین کی سالانہ غذائی اجناس کی پیداوار مسلسل 650 ملین ٹن سے اوپر رہی ہے۔ سال 2024 میں ملک کی غذائی اجناس کی پیداوار پہلی بار 700ملین ٹن سے تجاوز کر گئی اور فی کس غذائی اجناس کی ملکیت 500 کلوگرام تک پہنچ گئی، جو کہ فی کس 400 کلوگرام کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ غذائی تحفظ کی لکیر سے زیادہ ہے۔
ان کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ چین نے غذائی اجناس میں بنیادی خود کفالت اور اسٹیپل فوڈ (روٹی، چاول) میں مکمل تحفظ حاصل کر لیا ہے۔ صرف 40 سال پہلے، چین غذائی عدم تحفظ اور ناقص غذائیت کا شکار تھا۔ آج ،لاکھوں کروڑوں لوگوں کو غربت اور بھوک سے نکالنے میں اس کی کامیابی ایک قابل اعتماد مثال ہے۔
ان کامیابیوں کی بنیاد چین کی زرعی اراضی کے کل رقبے کو 1.8 ارب مو (120 ملین ہیکٹر) کی سرخ لکیر سے نیچے نہ گرنے دینے، اعلیٰ معیار کی زرعی زمینیں تعمیر کرنے کی کوششوں، اور جدید زرعی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی پالیسی ہے۔
چین کی وزارت زراعت اور دیہی امور کے مطابق، اس وقت چین میں 66.7 ملین ہیکٹر سے زیادہ اعلیٰ معیار کی زرعی زمینیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں مشینری کی شرح نفاذ 75 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جو دس سال پہلے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے۔
نئی ٹیکنالوجیز نے ملک کی غذائی سپلائی چین کے اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر، اس وقت چین ان ممالک میں شامل ہے جہاں غذائی اجناس کے ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجیز سب سے زیادہ جدید ہیں۔
اپنی ملکی کامیابیوں سے آگے، چین نے خوراک اور زراعت میں بین الاقوامی تعاون کو گہرا کرنے کے لیے فعال طور پر کوششیں کی ہیں، جو عالمی خوراک کی صنعت کو آگے بڑھانے اور دنیا بھر میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کوششیں افریقہ سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ زرعی مہارت کا تبادلہ کرنے کے لیے ملکی اقدامات میں جھلکتی ہیں، جس میں ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ تحقیق اور تربیتی پروگرام، اور عالمی غذائی گورننس میں فعال شرکت شامل ہے۔
گذشتہ سال چین۔افریقہ تعاون کو گہرا کرنے کے لیے چین کی جانب سے اعلان کردہ شراکت داری کی 10 سرگرمیوں میں زرعی تعاون کا ایک اہم پہلو ہے۔زراعت اور روزگار کے لیے شراکت داری کی سرگرمیوں کے تحت، چین نے گزشتہ سال افریقہ کو 1 بلین یوآن (تقریباً 141 ملین امریکی ڈالر) کی ہنگامی خوراک امداد فراہم کرنے، 100,000 مو معیاری زرعی مظاہرہ زون تیار کرنے، 500 زرعی ماہرین بھیجنے، اور چین۔افریقہ زرعی سائنس و ٹیکنالوجی انوویشن الائنس قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
چین نے ہمیشہ دیگر ممالک اور متعلقہ فریقوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مالیاتی، تکنیکی اور مارکیٹ سپورٹ میں اضافہ کریں، ہائی ٹیک تبادلوں پر پابندیاں کم کریں، اور زرعی صنعت کی ڈیجیٹل اور ذہین ترقی کو فروغ دیں۔
اسی طرح وقتاً فوقتاً چین میں منعقد ہونے والی زرعی تعاون سرگرمیوں میں حکومتی عہدیداروں، ماہرین اور صنعتی نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ ایک دوسرے کے تجربات، ٹیکنالوجیز اور ترقی کے مواقع کا تبادلہ کیا جا سکے اور فوڈ سیکیورٹی کی کوششوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا جا سکے ۔ |
|