فیشن ہر انسان کا حق ہے خدا خود
جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔ اس نے لباس ستر کے لیے بنایا لیکن اس
کو زیب و زینت کا ذریعہ بھی کہا پہلی سزا جو انسان کو دی گئی وہ بے لباسی
تھی جب حضرت آدم و حوّا نے شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگا یا تو انہیں بے لباس کر
دیا گیا اور بقول قرآن ، انہوں نے پتے توڑ توڑ کر اپنا ستر چھپانے کی کوشش
کی اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگی تو انہیں معاف تو کر دیا
گیا لیکن بطور سزا انہیں زمین پر بھیج دیا گیا سو یہ تھی لباس اور انسان کے
تعلق کی کہانی جسے تمام آسمانی مذاہب نے تسلیم کیا ہے۔ دوسری طرف تاریخ دان
کہتے ہیں کہ انسان نے ہزاروں سال تک وحشت میں زندگی گزارنے کے بعد جب تہذیب
سیکھی تو اس کا بہت بڑا جزو لباس تھا۔ لیکن شاید انسان اپنے دور وحشت کی
طرف پھر لوٹنے لگا ہے کہ وہ لباس کو مختصر سے مختصر کرتا جا رہا ہے اور اُس
نے اسے ستر پوشی کا ذریعہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔زیب و زینت سے بھی اُس نے
لباس کا اختصار ہی مراد لینا شروع کر دیا ہے۔ مغرب کی دنیا تو عرصہ دراز سے
اس بیماری میں مبتلا ہو چکی تھی اور لباس کی اہمیت کھو چکی تھی لیکن اب
مشرق نے بھی اندھا دھند اور بلا سوچے سمجھے اس دلدل میں پائوں رکھ دیا ہے
ابھی تو یہ ایک خوبصورت فریب ہے لیکن اسکی گہرائی کا اندازہ نہیں کیا جا
رہا ہے کہ ہم اپنی معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ اس
وقت ہمارا ملک بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ہمارا میڈیا ان مسائل کی
نشاندہی بھی کر رہا ہے لیکن دوسری طرف ایک طبقہ وہ بھی ہے جو فیشن شوز کے
نام پر مسلسل عریانیت کو فروغ دے رہاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی میڈیا جو
ملکی حالات پر تشویش سے آگے بڑھ کر واویلا مچا رہا ہوتا ہے کسی بھی ایسے
فیشن شو کی خبر بڑے زور و شور کے ساتھ دیتا ہے اور اِن ملبوسات اور ماڈلز
کے وہ، وہ زاویے دکھائے جاتے ہیں جنہیں کم از کم شریف خاندان کے افراد مل
بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے اور ہمارے نیوز چینلز جن تعریفی کلمات کے ساتھ یہ
خبر چلاتے ہیں وہ مزید قابل شرم ہیں۔ ہم اس وقت نہ صرف مسلح دہشت گردی کی
زد میں ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہم اس ثقافتی یلغار کی زد میں بھی ہیں جو
ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے لیکن ہمارا میڈیا خوش ہے کہ اِن بیہودہ قسم
کے فیشن شوز سے ہمارے ملک کا سوفٹ امیج اجاگر ہو رہا ہے یعنی وہ ملبوسات جو
ہماری ان ماڈلز کے علاوہ کوئی اور پہننے پر آمادہ نہیں کم از کم عوامی
مقامات پر تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ ہمارے ملک اور ہماری
ثقافت کو کیسے بین الا قوامی طور پر پیش کر سکتے ہیں اور اگر اِن شوز کو
تجارتی مقاصد کے لیے پیش کیا جاتا ہے تو پھر اسے پاکستانی میڈیا پر کیوں
فخر سے دکھایا جاتا ہے اور کیوں ملک میں اُس ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی
جارہی ہے جس کی نہ ہمارے مذہب میں اجازت ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں یہ
پسندیدہ ہے۔ لیکن چونکہ شاید ہم اسی چیز میں دنیا کے ساتھ مقابلے کے قابل
ہیں اس لیے ہم زور و شور سے اس میں مصروف ہیں۔ ترقی کی دوڑ دوڑنے کے لیے تو
ہمت بھی چاہیے اور قوت بھی اور اس کے لیے منصوبہ بندی بھی ضروری ہے جبکہ
کیٹ واک کے لیے اِن میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ سب تجارتی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے تو ہم
اپنے ملبوسات اور لباس کو فروغ کیوں نہیں دیتے کیا ضروری ہے کہ ہم تبھی
تجارت کر سکیں اور ترقی یافتہ کہلا سکیں جب ہم اپنے مذہب، ثقافت اور تہذیب
کو چھوڑ دیں ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے اور ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو
بالخصوص اور پرنٹ میڈیا کو بالعموم یہ سوچ لینا چاہیے کہ بہت ساری خرابیاں
اسی طرح جنم لیتی ہیں اور بہت ساری قومیں اسی بے حیائی کے ہاتھوں تباہ
ہوئیں کیونکہ اخلاقی گراوٹ تباہی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ہمارا معاشرہ آج جس
مقام پر پہنچ چکا ہے اُس کی ایک بہت بڑی وجہ اپنے مذہب، ثقافت اور معاشرت
سے دوری ہے اور یہ فیشن شوز کچے ذہنوں کو مذید خلجان میں مبتلائ کرتے ہیں
اگر یہی کر لیا جائے کہ بے حیائی کے ان کھلے مظاہروں کو میڈیا پر ہی نہ
دکھایا جائے تو بھی کم از کم کچھ تو بچت ہو فیشن اور بے حیائی اور عریانیت
میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو پھر اس سرگرمی کی گنجائش ہو سکتی ہے۔
لیکن فکر مندی اور دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا کوئی نیوز بلیٹن
اِن خبروں کے بغیر نہیں جاتا اور اگر کوئی فیشن شو منعقد نہ ہوا ہو تو
بھارتی فلموں کے انتہائی نا معقول بلکہ نہ دیکھنے کے قابل مناظر اور خبریں
اِن بلیٹنز کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ معاشرے کا بنائو اور بگاڑ ملک کے ہر
شہری اور ہر طبقے کا فرض ہے لیکن آج کی دنیا میں اس میں میڈیا کا ایک بہت
اہم کر دار ہے جسے اسے بہت محتاط ہوکر ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے میڈیا کو یہ
سوچ لینا چاہیے کہ پیسے سے زیادہ اہم ملک ہے اورکاروبار سے اہم ہماری
معاشرتی اقدار ہیں یہی ملک اور اقدار ہماری پہچان ہیں ان کے بغیر نہ ہماری
پہچان ممکن ہے اور نہ ہماری عزت اسی لیے یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے نہ
کہ اپنی ذاتی خواہشات اور نفع و نقصان ۔ |