میں اکثر یہ محسوس کر تا ہوں کہ
ہم اکثر و بیشتر اپنے آپ کو کسی قابل نہیں سمجھتے اور مغرب ہی کو ہر فن
مولا گردانتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم بہت باصلاحیت ہیں ہم میں وہ سب
صفات اور صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک انسان بالخصوص ایک مسلمان میں ہو نی
چائیں صرف اس کو تلاش اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے لیکن ہم بجائے اس کو
تلاش کرنے کے اپنے آپ کو صفر دے کر ضرب دے کرصفر بنا دیتے ہیں اور مغر ب کو
نمونہ آئیڈیل تصور کر کے اس کی تقلید کر تے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ اس
اندھی تقلید کو باعث فخر اور مدت سے تشبیہ دیتے ہیں اور کبھی بھی اس بات پر
غور نہیں کرتے کہ اندھی تقلید مغربیت ہے نہ کہ جدت،جدت تو وہ تھی جو آج سے
چودہ سو سال پہلے حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری سے اس دنیا میں آئی جس سے
گناہوں کی ظلمت ختم ہو ئی اور انسانیت مسکرانے لگی۔ جدت تو وہ تھی جس کی
روشنی حضرت عمر فاروق ؓ کے دورخلافت میں مکہ و مدینہ سے مکران تا پھیلی ہو
ئی تھی ۔جدت تو وہ تھی جو محمد بن قاسم کے روپ میں پورے برصغیر میں پھیل
گئی جس کے نتیجے میں فسادات کی بنیاد پڑی اور آقا و غلام ایک ہی صف میں
کھڑے ہو نے لگے۔لیکن ان نمونوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ہماری مثال ایسی ہے
جیسے کیا خوب شاعر احسان دانش صاحب نے کہا ہے۔
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیئے سائے ہم نے
اگر ہم اپنے مذہب اورمشرقی روایات کو چھوڑ کر مغرب کی اندھی تقلید کر تے
ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم میں جدت آگئی ہے توہر گز نہیں بلکہ
)کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھول گیا (کے مصداق نہ ہم ادھر کے رہینگے نہ ادھر
کے۔
اگر ہم ایسا نہیں چاہتے تو پھر ہمیں اپنی مذہبی اور مشرقی روایات پہ ڈٹے
رہنا ثابت قدمی سے اپنی قوری قوم کو مغرب کی اندھی تقلید سے بچانا ہے لیکن
ان نیک جذبات کے باوجود اگر ہمیں یہ خوف ہے کہ اس طرح ہم پوری دنیا میں
اکیلے رہ جائینگے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چائیے کہ
"نا خدا جن کا نہ ہو ان کا خدا ہوتا ہے"
اور جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا ساتھ ہو تا ہے وہ کسی بھی فرعون کا خوف دل میں
نہیں لاتا ۔لیکن افسوس کہ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ہم مسلمان آج دنیا کے جھوٹے
خوف اور وحشتوں کے جال میں پھنس کر ایسے دوراہے پر آکھڑے ہیں کہ ہمارے لئے
منزل کا تعین مشکل ہو گیا ہے ۔لیکن منزل تو ہمارے سامنے ہے اور اس تک
پہنچنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ اﷲ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی
اطاعت۔لیکن افسوس ہم اﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت کی آڑ میں اپنے دنیاوی مفادات
حاصل کرنے کے حریصانہ کو ششوں میں لگے ہیں ہم مسلمان اس لئے ہیں کہ
مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے ہیں ۔اسلام کو ہم نے سوچ سمجھ کر قبول کر نے
کی کوشش ہی کب کی ہے اگر آج ہمارے دل اسلام کو مان لیں تو ہمارے گردو پیش
کی ہر ظلمت نور کا لباس پہن سکتی ہے۔
اگر اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تھوڑی ڈھیل دے رکھی ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چائیے
کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنی رسی کھینچے گا تو پھر ہمارے پاس سیکنڈ کا ہزاروں حصہ
بھی نہیں ہو گا کہ ہم گناہوں کی معافی تک مانگ سکیں اس بات پر سوچئے گا
ضرور یہی سوچنے کا وقت ہے۔ |