الف لام میم, ایک راز کی تمہید

”الف لام میم۔“ (سورۃ البقرۃ: 2)
قرآنِ حکیم کی دوسری سورت ”البقرہ“ کے آغاز میں ہمیں تین حروفِ مقطعات ملتے ہیں: ”الف، لام، میم۔“ بظاہر یہ تین حروف ہیں، لیکن درحقیقت یہ وحی کے اُس دروازے کا دستک ہیں جو عقل کی دسترس سے باہر اور دل کی گہرائیوں کے قریب تر ہے۔ قرآن کی ابتدا ہی ایک ایسا راز ہے جس پر عقل ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے، اور روح سجدے میں جھک کر سننے لگتی ہے۔ ”الف لام میم“ محض تین حروف نہیں، بلکہ وہ مقدس دروازہ ہے جس سے داخل ہو کر قلب انسانی وحی کے بامِ بلند پر پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ایسے حروف سے شروع کیا جن کی ظاہری ترکیب تو انسانی زبان کی بنیاد ہے، مگر معنوی حقیقت وہی جانتا ہے جس نے یہ الفاظ نازل فرمائے۔ اہلِ علم، صوفیاء اور مفسرین ان حروف پر طویل تفاسیر کرتے آئے ہیں، مگر ہر تفسیر کے بعد ایک خاموشی باقی رہتی ہے۔ یہ خاموشی محض لاعلمی نہیں بلکہ عاجزی کی علامت ہے، کہ انسان علم کے باوجود رب کی حکمت کے سامنے جھک جاتا ہے۔ ان حروف کی معنویت بظاہر خاموش ہے، مگر ان کی خامشی میں صداقت کی ایک عجیب گونج سنائی دیتی ہے۔ مفسرین نے ان حروفِ مقطعات کے بارے میں بہت کچھ لکھا، بہت کچھ کہا، مگر کوئی بھی ان کے معنی کی آخری حد تک نہ پہنچ سکا۔ کیونکہ ان کا علم صرف اللہ کو ہے۔ مگر ان حروف کی معنویت یہی ہے کہ یہ ہمیں علم کی عاجزی، فہم کی حد بندی، اور وحی کی رفعت کا احساس دلاتے ہیں۔ ان حروف کے ذریعے اللہ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ تمہارا علم جتنا بھی وسیع ہو جائے، اس کتاب کے اسرار کا ایک دائرہ ایسا ہے جو صرف اللہ کے علم میں ہے، اور تمہیں صرف اتنا معلوم ہو گا جتنا وہ چاہے گا۔ ”الف لام میم“ ایک ایسا اشارہ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ کتاب جس کا آغاز ہو رہا ہے، یہ محض کلمات نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ایک ہدایت نامہ ہے، جس کے الفاظ ہمارے جیسے، لیکن مفہوم اُس کے جیسا ہے جو سب کچھ جانتا ہے، جو زمان و مکان سے ماورا ہے۔ یہ حروف گویا ایک خفیہ دروازہ ہیں جو قاری کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ عقل کے محدود دائرے سے نکل کر دل کے وسیع افق میں داخل ہو، جہاں یقین کی روشنی علم سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔ جہاں الفاظ کے پیچھے نیت دیکھی جاتی ہے، اور آواز کے پیچھے صداقت۔ ”الف لام میم“ ہمیں ایک خاموش نصیحت دیتا ہے کہ تم عقل سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہو، مگر جو کچھ وحی میں ہے، وہ تمہیں صرف تسلیم کر کے، جھک کر، عاجز ہو کر ہی ملے گا۔ یہ حروف ہمیں بتاتے ہیں کہ قرآن کی پہلی شرط فہم نہیں، تسلیم ہے۔ پہلا زینہ دلیل نہیں، دل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حروف اُس تحدی (چیلنج) کا پیش خیمہ ہوں جو قرآن غیر مؤمنین کے سامنے رکھتا ہے کہ اگر تمہیں شک ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نہیں، تو تم بھی ایسے الفاظ، ایسے معانی پیدا کرو، انہی حرفوں کو لے کر۔ لیکن آج تک کوئی ان تین حروف کو اکٹھا کر کے، ان جیسے اثرات، ان جیسی روحانی گہرائی، ان جیسے دل دہلا دینے والے معانی نہیں لا سکا۔ گویا ”الف لام میم“ صرف آغاز نہیں، اعلان ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ اب جو کلام آ رہا ہے وہ معمولی نہیں، وہ عالمِ غیب سے ہے۔ اور یہ تم سے تمہاری سچائی، تمہاری طلب، تمہاری عاجزی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ”الف لام میم“ قرآن کی دہلیز ہے، جہاں سے عقل اندر داخل نہیں ہوتی، بلکہ قلب داخل ہوتا ہے۔ یہاں دلیل خاموش ہو جاتی ہے اور یقین بولتا ہے۔ یہاں منطق رک جاتی ہے اور روح پرواز کرتی ہے۔ یہ حروف ایک لطیف امتحان ہیں کہ کیا تم اس کلام پر ایمان لا سکتے ہو جب تم اسے پوری طرح سمجھ نہیں سکتے؟ اور جب تم ایمان لے آتے ہو، تب قرآن تم پر اپنے راز کھولتا ہے۔ اگر یہ قرآن محبت کا پیغام ہے، تو ”الف لام میم“ اس محبت کا پہلا اشارتیہ ہے۔ محبت میں سب کچھ سمجھنے کی شرط نہیں ہوتی، صرف ماننے کا جذبہ کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ حروف ہمیں سکھاتے ہیں کہ روحانی سفر کے لیے عقل کا ہونا لازم ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر دل کی نرم خاک پر یقین کا بیج بویا جانا ضروری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں وہ یقین عطا فرماے, جو قرآن سمجھنے میں ہماری مدد کرے۔ آمین۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 56 Articles with 34994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.