زندگی پسند اور ناپسند کے درمیاں ۔۔۔
(Noman Baqi Siddiqi, Karachi)
دھواں سا اٹھ رہا ہے جو آٹھ تو رہاہے لیکن مہندی حسن کی گائ غزل کی طرح سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ کہاں سے اٹھتا ہے مگر ابھی تو چاے سے اٹھ رہا ہے جو ابھی گرم ہے لیکن جزبات کی طرح ٹھنڈے ہوتے بھی دیر نہیں لگتی اور انسان کو طیش میں آتے دیر نہیں لگتی اور وہ بھی تو سامنے ہے ہمیشہ کی طرح لیکن آج وہ بات نہیں جو اس میں ہوتی ہے اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو کل پسند تھا آج ناپسند ہے ؟ جدای ہوتی تو بھی ایک بات ہوتی لیکن یہاں تو وہ موجود بھی ہے مگر وجود ِ عدم لے کر ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ، کچھ نا کچھ تو ایسا ہو گا ، کوئ تو وجہ ہو گی یا پھر پسندیدہ کو کسی نادیدہ طاقت نے نا پسندیدہ کر دیا ہے ؟
یہ کیا ہو گیا کہ جو مجھے پسند تھا جسے میں شوق سے دیکھتا بھی تھا اور کھاتا بھی تھا یعنی کم تیل کا پراٹھا اور چاے آج کیوں نہیں کھایا جا رہا ہے ؟
سامنے میرا چھوٹا ٹی وی یعنی موبائل پر ایک طرف یہ آ رہا ہے کہ وٹامن ڈی کے ٹو کے ساتھ لازمی ہے ؟ دوسری طرف یہ کہ یہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جب سنا تو پتہ چلا کہ دونوں باتیں ٹھیک ہیں یعنی فائیدہ مند تو ہیں لیکن مناسب مقدار میں اور اس شخص کی عمر طبیعت اور دوسرے عوامل کے لحاظ سے تجویز کیا جاسکتا ہے اپنے معالج کے مشورے سے ۔ اس طرح دونوں باتیں ٹھیک ہیں کہ فایدہ مند بھی اور نقصان دہ بھی
پھر وہاں چلتے ہیں کہ وہ ہی پراٹھا کھانے کا دل بھی چاہ رہا ہے اور کسی دن نہیں بھی اور کسی کو پسند بھی کیا جا رہا ہے اور نا پسند بھی
دھواں بدستور اٹھ رہا ہے ان سوچوں کے ساتھ لیکن دوسری چاے سے کیونکہ پہلی تو ٹھندی ہو گئ اور اس سے پہلے کہ دوسری بھی ٹھندی ہو جاے اس وقت اس موجود لمحہ کا لطف اٹھا لیا جاے اٹھتے دھوئیں کے ساتھ ، خدا کی نعمت اور مہربانی کے ساتھ۔
|