غزہ : ایک اور کربلا

غزہ : ایک اور کربلا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عصرِ حاضر میں غزہ محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں رہا بلکہ وہ ایک ایسی علامت بن چکا ہے جس میں جدید عالمی سیاست کا اصل چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ چہرہ ہے جس پر انسانی حقوق کے نعروں کی نقاب تو ہے، مگر آنکھوں میں مفاد، طاقت اور عسکری برتری کی سرد چمک نمایاں ہے۔ اکیس ماہ سے جاری جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جدید دنیا نے انسانیت کو ایک مشروط قدر بنا دیا ہے، ایسی قدر جو صرف طاقتور ریاستوں کے لیے محفوظ ہے، اور کمزور اقوام کے لیے محض ایک لغوی اصطلاح۔ غزہ میں بسنے والے چوبیس لاکھ فلسطینی اسی مشروط انسانیت کے سب سے بڑے شکار ہیں، جن کی زندگی، موت، بھوک اور پیاس عالمی سیاسی لغت میں کسی اہم اصطلاح کے طور پر تسلیم ہی نہیں کی جا رہی۔
یہ حقیقت اب کسی مبالغے کی محتاج نہیں رہی کہ غزہ کے خلاف کارروائیاں محض عسکری نوعیت کی نہیں بلکہ ایک منظم اجتماعی سزا کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ جس طرح کربلا میں پانی کو بند کر کے جسمانی قتل سے پہلے اخلاقی قتل کیا گیا تھا، ویسے ہی غزہ میں خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور ادویات کو ہتھیار بنا کر ایک پوری آبادی کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی منطق ہے جو ہر دور کے جابر استعمال کرتے آئے ہیں: مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے صرف لڑنے والوں کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو سزا دی جائے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج یہ سب جدید ہتھیاروں، سیٹلائٹ نگرانی اور عالمی خاموشی کے سائے میں ہو رہا ہے۔
عالمی برادری کی خاموشی دراصل اس ظلم کا سب سے طاقتور ہتھیار بن چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کی رپورٹس اور عالمی اداروں کی وارننگز اگر عملی اقدام میں تبدیل نہ ہوں تو وہ محض کاغذی دستاویزات رہ جاتی ہیں۔ غزہ کے معاملے میں یہی ہوا۔ بار بار خبردار کیا گیا کہ قحط دستک دے رہا ہے، کہ اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، کہ بچوں کی اموات خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں، مگر طاقت کے ایوانوں میں یہ خبریں صرف فائلوں کا بوجھ بڑھاتی رہیں، ضمیر کا نہیں۔
یورپی یونین کی داخلی کشمکش اس بحران کی اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک نمایاں مثال ہے۔ جب خود یورپی سفارتی ادارے یہ تسلیم کر لیں کہ غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، مگر اس کے باوجود عملی اقدام پر آمادہ نہ ہوں، تو یہ سوال لازمی پیدا ہوتا ہے کہ انسانی حقوق دراصل کس کے لیے ہیں۔ جرمنی کا اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان محض تاریخی احساسِ جرم کا نتیجہ نہیں بلکہ موجودہ عالمی سیاست میں اخلاقیات کی قربانی کی ایک واضح مثال ہے۔ ماضی کے ایک ظلم کا کفارہ ادا کرتے ہوئے حال کے ایک بڑے ظلم کو نظرانداز کر دینا انصاف نہیں بلکہ انصاف کی توہین ہے۔
غزہ میں قحط محض قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ امدادی راستوں کی بندش، سامان کی ترسیل پر قدغنیں اور انسانی ضروریات کو عسکری خطرہ قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھوک کو باقاعدہ جنگی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کہ امداد حماس کے ہاتھ لگ جاتی ہے، متعدد آزاد عالمی اداروں نے مسترد کر دیا، مگر اس کے باوجود پابندیاں برقرار رہیں۔ اس کے بعد غزہ ہیومنیٹری فیڈریشن کے نام سے جو نظام متعارف کروایا گیا، اس نے انسانی امداد کو بھی عسکری کنٹرول کے تابع کر دیا۔ خوراک لینے کے لیے آنے والے غیر مسلح شہریوں پر فائرنگ اس بات کا اعلان تھی کہ یہاں مسئلہ سیکیورٹی نہیں بلکہ اطاعت ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کے اعترافات کہ انہیں غیر مسلح ہجوم پر براہ راست فائرنگ کا حکم دیا جاتا ہے، کسی مخالف بیانیے کا حصہ نہیں بلکہ خود ریاستی نظام کے اندر سے اٹھنے والی گواہی ہے۔ جب آنسو گیس یا ہجوم کو منتشر کرنے کے غیر مہلک طریقے ممنوع ہوں اور مشین گنیں، مارٹر اور گرینیڈ لانچر واحد ذریعہ ہوں، تو یہ جنگ نہیں بلکہ مثال قائم کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ زندہ رہنا بھی اجازت کا محتاج ہے۔
بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے واضح طور پر اس طرزِ عمل کو جنگی جرم قرار دیا ہے، مگر قانون تبھی مؤثر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے طاقت کھڑی ہو۔ غزہ کے معاملے میں طاقت قانون کے خلاف صف آرا ہے۔ امریکہ کی ویٹو پاور نے سلامتی کونسل کو ایک اخلاقی عدالت کے بجائے ایک سیاسی ڈھال بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو یقین ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، کوئی مؤثر احتساب اس کا منتظر نہیں۔
یہ تمام صورتِ حال کربلا کے اس بنیادی سوال کو دوبارہ زندہ کر دیتی ہے کہ جب ظلم ریاستی طاقت کے ساتھ ہو اور دنیا خاموش تماشائی بن جائے، تو حق کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ غزہ میں مرنے والے بچے کسی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں، وہ محض اس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں کہ وہ ایک ایسے خطے میں پیدا ہوئے جہاں طاقت کا توازن ان کے خلاف ہے۔ ان کی مائیں زینبؓ کی طرح لاشیں اٹھا رہی ہیں اور دنیا دلیلیں تراش رہی ہے۔
امریکی اور یورپی طاقتوں کے مجوزہ منصوبے، جن میں جنگ بندی کو علاقائی سودوں اور سیاسی مفادات سے مشروط کیا جا رہا ہے، دراصل مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے نئی شکل دینے کی کوشش ہیں۔ غزہ کا انتظام کسی اور کے حوالے کرنا، آبادی کی ممکنہ منتقلی اور فلسطینی قیادت کو جلاوطن کرنے کی تجاویز اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرتی ہیں کہ مسئلہ زمین یا نظم و نسق کا نہیں بلکہ حقِ خود ارادیت کا ہے۔ جب تک فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آزاد اور خودمختار وجود کا حق نہیں دیا جاتا، ہر منصوبہ محض وقتی بندوبست ہی رہے گا۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ظلم وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے مگر اسے اخلاقی جواز کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ کربلا میں بھی طاقت جیتی تھی، مگر تاریخ نے حق کا ساتھ دیا۔ غزہ بھی تاریخ کے اسی کٹہرے میں کھڑا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون جیتے گا، سوال یہ ہے کہ دنیا کس کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی جب آنے والی نسلیں اس دور کا حساب مانگیں گی۔
غزہ آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں رہا، یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ اگر یہ امتحان بھی خاموشی، مصلحت اور مفاد کی نذر ہو گیا تو پھر انسانی حقوق، عالمی قانون اور اخلاقی اقدار محض کتابوں اور تقریروں تک محدود رہ جائیں گی۔ غزہ کی آگ دراصل ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ ہر دور کی کربلا یہ سوال چھوڑ جاتی ہے کہ حق کو پہچاننے کے بعد خاموش رہنا بھی جرم ہوتا ہے۔
عرب دنیا کا کردار اس المیے میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور تکلیف دہ پہلو بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ خطہ جس کی تاریخ، ثقافت، مذہب اور سیاسی شعور فلسطین کے ساتھ گہرے رشتے میں بندھا ہوا ہے، آج اسی مسئلے پر سب سے زیادہ منقسم، محتاط اور مصلحت کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ عرب ریاستیں رسمی مذمتی بیانات، انسانی ہمدردی کے اعلانات اور محدود سفارتی کوششوں تک تو موجود ہیں، مگر وہ اجتماعی سیاسی جرات دکھانے سے قاصر نظر آتی ہیں جو اس بحران کے حجم کے مطابق ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر عرب حکومتیں اپنی بقا کو عوامی رائے سے زیادہ عالمی طاقتوں کی خوشنودی سے وابستہ سمجھتی ہیں۔ امریکی دباؤ، علاقائی معاہدات، معاشی مفادات اور داخلی عدم استحکام نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ ظلم کو روکنے کے بجائے اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ غزہ کے لیے حقیقی سیاسی اور عسکری دباؤ پیدا کرنے کے بجائے معاملے کو سفارتی فائلوں، کانفرنسوں اور ثالثی کی ناکام کوششوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ کچھ عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بہتری ایک اسٹریٹجک ترجیح بن چکی ہے، جس کے سامنے فلسطینی عوام کی قربانی ایک قابلِ قبول قیمت سمجھی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف سیاسی کمزوری کی علامت ہے بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا اعلان بھی ہے۔ تاریخ ایسے لمحات کو کبھی معاف نہیں کرتی، کیونکہ جب ظلم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کی جائے تو وہ خاموشی خود ظلم کا حصہ بن جاتی ہے۔
مسلم دنیا بحیثیت مجموعی بھی اسی امتحان سے گزر رہی ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے والی امت، جس کے پاس قدرتی وسائل، افرادی قوت اور جغرافیائی اہمیت موجود ہے، غزہ کے معاملے میں مؤثر اجتماعی کردار ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس ناکامی کی جڑیں محض سیاسی اختلافات میں نہیں بلکہ فکری انتشار، قیادت کے فقدان اور ترجیحات کے بگاڑ میں پیوست ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ اکثر جذباتی نعروں، وقتی احتجاج اور سوشل میڈیا کے غصے تک محدود ہو جاتا ہے، مگر ریاستی سطح پر وہ سنجیدہ حکمتِ عملی نظر نہیں آتی جو عالمی طاقتوں کو حقیقی دباؤ میں لا سکے۔
میڈیا کا کردار بھی اس بحران میں غیر جانب دار نہیں رہا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے طویل عرصے تک غزہ کے انسانی المیے کو یا تو پس منظر میں رکھا یا اسے ایسے الفاظ میں بیان کیا جو ظلم اور مزاحمت کے درمیان فرق کو دھندلا دیتے ہیں۔ طاقتور بیانیہ ہمیشہ ریاستی مؤقف کے گرد گھومتا رہا، جبکہ مظلوم کی آواز کو جذباتی، جانبدار یا غیر معتبر قرار دے کر کمزور کیا گیا۔ یہ بیانیاتی ناانصافی بھی اس جنگ کا ایک اہم محاذ ہے، کیونکہ جس سچ کو دنیا نہ دیکھے، اس پر عمل کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔
حقیقت ہے کہ غزہ نے عالمی سطح پر ایک نیا شعور بھی پیدا کیا ہے۔ مغربی معاشروں میں طلبا، اساتذہ، انسانی حقوق کے کارکن اور آزاد صحافی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے، یونیورسٹیوں میں احتجاج ہوئے اور ریاستی بیانیے کو کھلے عام چیلنج کیا گیا۔ یہ آوازیں اگرچہ حکومتی پالیسی کو فوری طور پر تبدیل نہیں کر سکیں، مگر انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ عالمی ضمیر مکمل طور پر مردہ نہیں ہوا۔ یہ وہ چنگاریاں ہیں جو اگر زندہ رہیں تو مستقبل میں بڑے اخلاقی سوالات کو جنم دے سکتی ہیں۔
مستقبل کے منظرنامے پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ راستہ غزہ کے لیے کسی پائیدار امن کی طرف نہیں جاتا۔ اگر جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہوئی، اگر محاصرہ کسی اور شکل میں جاری رہا، اور اگر فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کو ایک بار پھر نظرانداز کیا گیا، تو یہ خطہ مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ طاقت کے زور پر امن مسلط نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایسا امن خوف پر قائم ہوتا ہے اور خوف کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالمی برادری امن کو انصاف سے الگ کر کے دیکھنا چاہتی ہے۔ غزہ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جہاں انصاف نہ ہو وہاں امن محض ایک فریب ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کو آزاد ریاست، محفوظ سرحدیں، خودمختار سیاسی نظام اور باعزت زندگی کا حق دیے بغیر کوئی بھی منصوبہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے نظرانداز کر کے ہر نئی تجویز پیش کی جاتی ہے اور ہر بار وہی ناکامی دہرائی جاتی ہے۔
غزہ کا المیہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ طاقتوروں کے بیانیے سے نہیں لکھی جاتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اپنی جگہ بنا لیتا ہے، اور وہ سوالات جو آج دبائے جا رہے ہیں، کل زیادہ شدت سے ابھرتے ہیں۔ کربلا میں بھی حق وقتی طور پر تنہا تھا، مگر اسی تنہائی نے اسے آفاقی بنا دیا۔ غزہ بھی اسی راستے پر کھڑا ہے، جہاں مظلوم کی تعداد نہیں بلکہ اس کا موقف اسے تاریخ میں زندہ رکھے گا۔
دنیا اگر آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ خاموشی اختیار کر کے وہ خود کو اس جرم سے الگ رکھ سکتی ہے تو یہ ایک خطرناک خوش فہمی ہے۔ اجتماعی ضمیر کا حساب انفرادی نیتوں سے نہیں بلکہ اجتماعی رویّوں سے لیا جاتا ہے۔ غزہ کے بچے، عورتیں اور بوڑھے آنے والے وقتوں میں یہ سوال نہیں کریں گے کہ کون طاقتور تھا، وہ یہ پوچھیں گے کہ کون خاموش تھا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں غزہ واقعی ایک اور کربلا بن جاتا ہے۔ یہاں بھی پانی بند ہے، یہاں بھی لاشیں بے گورو کفن ہیں، یہاں بھی حق کمزور اور باطل مسلح ہے، اور یہاں بھی دنیا فیصلہ کن لمحے میں تماشائی بنی کھڑی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج یہ سب سیٹلائٹ تصاویر، لائیو فوٹیج اور لمحہ بہ لمحہ خبروں کے دور میں ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر انسانیت بے حس رہے تو یہ جدید دور کی سب سے بڑی اخلاقی ناکامی ہو گی۔
غزہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے ضمیر سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم نے انسانیت کو واقعی ایک آفاقی قدر سمجھا ہے یا محض ایک سیاسی نعرہ بنا دیا ہے۔ اگر جواب دوسرا ہے تو پھر غزہ جلتا رہے گا، کہیں اور ایک نئی کربلا جنم لیتی رہے گی، اور دنیا ہر بار یہی کہتی رہے گی کہ ہم بے بس تھے۔ تاریخ مگر اس عذر کو قبول نہیں کرتی۔ 
Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 31 Articles with 9808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.