تلواریں بھی بہت ہیں، گردنیں بھی
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجازعاشر تاریخِ انسانی کے اوراق جب بھی الٹے جائیں، تو یہ حقیقت آفتابِ نیم روز کی طرح روشن دکھائی دیتی ہے کہ قوموں کی بقا نہ تلوار کی دھار سے وابستہ رہی ہے، نہ لشکروں کی کثرت سے، بلکہ اصل دوام اس سماجی شعور، اخلاقی برداشت اور باہمی احترام میں پنہاں رہا ہے جو دلوں کو جوڑنے کی قوت رکھتا ہو۔ جہاں اقلیت کو سلام کے جواب میں امن ملا، وہاں تہذیب نے سانس لی؛ اور جہاں اختلاف کو جرم سمجھا گیا، وہاں قبرستان آباد ہوئے۔ اقلیتوں کے حقوق کا سوال کوئی جدید اصطلاح نہیں، نہ ہی یہ مغربی فلسفے کی ایجاد ہے۔ یہ سوال تو اس دن پیدا ہوا تھا جب انسان نے دوسرے انسان کو صرف مذہب، نسل یا رنگ کی بنیاد پر پرکھنا شروع کیا۔ اسلام نے اس سوال کا جواب چودہ سو برس قبل دے دیا تھا، وہ بھی کسی قرارداد، منشور یا عالمی فورم کے بغیرمحض اخلاق، عدل اور خدا ترسی کے اصول پر۔ یہ سوال قانونی نہیں کہ اسلام میں اقلیتوں کو سلام میں کیا حقوق حاصل ہیں؟، بلکہ تہذیبی، اخلاقی اور روحانی بھی ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ غیر مسلم رعایا کو “ذمی” کہہ کر تحفظ کی چادر اوڑھائی گئی، نہ کہ شک کی زنجیر پہنائی گئی۔ مدینہ کی ریاست میں یہودی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے پیروکار اپنے مذہبی شعائر، عبادات اور معاشرتی شناخت کے ساتھ زندہ رہے۔ ان کے گرجے محفوظ رہے، ان کی جان و مال ریاست کی ذمہ داری ٹھہری، اور ان کے عقائد کو طنز و تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اسلام اقلیت کو صرف زندہ رہنے کا حق نہیں دیتا، بلکہ باعزت زندگی کا ضامن بنتا ہے۔ یہاں سلام کا جواب دینا بھی حسنِ اخلاق ہے، اور عبادت گاہ کی حفاظت بھی دینی فریضہ۔ حضرت عمرؓ کا وہ تاریخی واقعہ آج بھی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے، جب ایک یہودی کے حق میں مسلمان گورنر کے خلاف فیصلہ صادر کیا گیا,یہ تھا اسلامی عدل، اور یہی اقلیت کا اصل تحفظ۔ پاکستان، جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا، اس کے قیام کی بنیاد ہی اقلیت کے حقِ آزادی پر رکھی گئی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وہ گونجتی ہوئی آواز آج بھی دستور کے اوراق میں محفوظ ہے:“آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مسجدوں میں عبادت کرنے کے لیے، اور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔” یہ الفاظ ایک عہد تھے,ایک اخلاقی میثاق۔ پاکستان میں اقلیتوں کو آئینی طور پر مذہبی آزادی حاصل ہے۔ گرجا گھر ہوں یا مندر، گوردوارے ہوں یا آتش کدےسب کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کہیں انفرادی سطح پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا بھی ہے، تو وہ ریاستی پالیسی نہیں بلکہ سماجی لغزش ہوتی ہے، جسے مجموعی قومی رویے پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں مذہبی اقدار کی بے حرمتی کو نہ آزادیٔ اظہار کہا گیا، نہ اسے دانشوری کا لبادہ پہنایا گیا۔ یہاں قرآن کی حرمت ہو یا نبی کریم ﷺ کی ناموس یہ محض مذہبی مسئلہ نہیں، بلکہ اجتماعی غیرت کا سوال ہے۔ یہاں اختلاف کی اجازت ہے، گستاخی کی نہیں؛ یہاں تنقید کا حق ہے، توہین کا نہیں۔ اس کے برعکس جب ہم سرحد پار یا دیگر ممالک کا جائزہ لیتے ہیں تو تصویر خاصی مختلف نظر آتی ہے۔ بھارت، جو خود کو سیکولر ریاست کہلوانے پر مصر ہے، وہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کبھی مسجدوں پر دعوے، کبھی حجاب پر پابندیاں، کبھی شہریت کے قوانین، اور کبھی ہجوم کے ہاتھوں قتل یہ سب آزادیٔ رائے کے خوش نما پردے میں لپٹی ہوئی حقیقتیں ہیں۔ وہاں اقلیت کے مذہبی شعائر کو سیاسی نعرہ بنا دیا گیا ہے۔ اذان کو شور کہا جاتا ہے، حجاب کو پسماندگی، اور داڑھی کو شدت پسندی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ وہاں قانون کیا کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ وہاں کا سماجی ضمیر کیا قبول کرتا ہے۔دیگر مغربی ممالک میں بھی آزادیٔ اظہار کے نام پر اسلامی شعائر کی توہین کو باقاعدہ “حق” قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن سوزی ہو یا خاکے، گستاخی کو فن اور نفرت کو رائے کہا جاتا ہے۔ مگر یہ آزادی صرف ایک ہی مذہب کے لیے کیوں زہر بن جاتی ہے؟ کیا احترام صرف طاقتور اکثریت کا حق ہے؟ یہ حقیقت تلخ سہی، مگر ناقابلِ تردید ہے کہ جہاں برداشت ختم ہو، وہاں مکالمہ دفن ہو جاتا ہے، اور جہاں مکالمہ مر جائے، وہاں تلوار بولتی ہے۔ تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ تلواریں بھی بہت ہیں اور گردنیں بھی مگر انجام ہمیشہ خون اور خاک کے سوا کچھ نہیں نکلا۔باہمی تعاون، امن اور ہم آہنگی کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب انسان انسان کو انسان سمجھے نہ کہ مذہبی خانوں میں قید کر کے۔ برداشت کوئی کمزوری نہیں، بلکہ تہذیب کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جو قوم دوسروں کے عقائد کا احترام نہیں کرتی، وہ دراصل اپنے مستقبل کی جڑیں کاٹتی ہے۔ اسلام نے ہمیں سکھایا کہ اختلاف کے باوجود عدل لازم ہے، نفرت کے باوجود انصاف فرض ہے، اور دشمن کے سامنے بھی اخلاق ترک نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ اصول ہیں جو پاکستان کی نظریاتی بنیاد ہیں، اور یہی وہ اقدار ہیں جنہیں دنیا کو سیکھنا ہوگا۔اگر ہم نے برداشت نہ سیکھی، اگر سلام کے جواب میں پتھر اچھالتے رہے، اگر اختلاف کو دشمنی سمجھتے رہےتو یاد رکھئے، تاریخ کے بازار میں لاشوں کی قیمت کبھی کم نہیں ہوتی۔جیسے پہلے بھی کہا کہ تلواریں بھی بہت ہیں، گردنیں بھی,مگر فاتح کوئی نہیں ہوتا۔اصل فتح صرف انسانیت کی ہوتی ہے۔
Haseeb Ejaz Aashir | 03344076757 |